Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Friday, April 29, 2016

’’کلیات کلیم عاجز‘‘ پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پرمعروف ادیب و نقاد اور محقق فاروق ارگلی کی مرتبہ کتاب ’’کلیات کلیم عاجز‘‘پر شامِ شہریاراں کے موقع پر ۲۸ اپریل،شام چھے بجے ایک اہم مذاکرے کااہتمام کیا گیا۔ اس مذاکرے کی صدارت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ پروفیسر کلیم عاجز ایک مقبول لب و لہجے کے شاعر تھے۔ چونکہ عوامی زندگی سے بہت قریب تھے لہٰذا اُن کی شاعری میں سماجی پہلو بھی کافی نظر آیاہے۔ اس بات کے سبھی معترف ہیں کہ وہ اپنے عہد کے بڑے شاعر تھے۔ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ شام شہریاراں کے موقع پر ہم اُن کو یاد کر رہے ہیں۔ہمیں پوری امید ہے کہ فاروقی ارگلی کی اس کاوش کو علمی دنیا میں عزت کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔
پروفیسر اخترالواسع جواس جلسے میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے آپ نے بھی اس کلیات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ کلیم عاجز کے کلام کو پڑھ کر یہ احساس ہوتاہے کہ ان کی غزوں میں دکھ بھروں کی حکایتیں اور حزن و ملال کی کہانیاں ہیں۔انہوں نے اپنی غزلوں میں ترتیب کابھی خیال رکھاہے جب وہ اپنے جذبات و خیالات کو شعرکے پیرائے میں ڈھالتے ہیں تو وہ ایک ہی نہج پر گفتگو کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تسلسل کا احساس ہوتاہے۔ آپ نے فاروق ارگلی کے اس اہم کام پر انہیں مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ آپ جوبھی علمی کام کرتے ہیں وہ بڑے سلیقے سے کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال کلیات کلیم عاجز ہے جو بارہ سو صفحات پر محیط ہے۔بہار اردو اکادمی کے سکریٹری جناب مشتاق احمد نوری بھی اس محفل میں خاص طور سے تشریف لائے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ کلیم عاجز کے اشعار بچپن ہی سے میرے حافظے میں محفوظ ہیں ان کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ ایک اچھے شاعرکے ساتھ ساتھ دین و شریعت کے پابند بھی تھے۔ یونیورسٹی کے پروفیسر رہے،انگریزی زبان و ادب پرانہیں عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اپنا کوئی نظریاتی گروہ بنایااور نہ خود کسی گروہ میں شامل ہوئے۔ اردو زبان و ادب اور علم و ادب کا فروغ و اصلاحِ معاشرہ ان کا ہمیشہ سے نصب العین رہا۔
ڈاکٹر خالد علوی نے اپنی تقریر میں کلیم عاجز کوخراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ان کی شاعری اس لیے بھی انفرادیت کی حامل ہے کہ ان کے کلام میں تازگی کا احساس ہوتاہے۔ آپ نے کلیم عاجز کے متعدد شعر بھی پیش کیے اورچند معروف شعراء کے کلام سے ان کے کلام کاتقابلی مطالعہ بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر خالد علوی نے کلیم عاجز کی شاعری کے اُن نکات کی بھی نشان دہی کی جس پرعام طورسے گفتگو کم ہوتی ہے۔اس موقع پر کلیات کلیم عاجز کے مرتب فاروق ارگلی نے بھی اس بات کااظہارکیاکہ کلیم عاجز ہمیشہ سے میرے پسندیدہ شاعر رہے، اُن کی تخلیقات منتشر تھیں میں نے فرید بُک ڈھو کے تعاون سے اُن کے تمام مجموعوں کوایک جگہ جمع کردیاہے۔ یہ کام اس لیے بھی ضروری تھاکہ کلیم عاجز ہمارے شعری ادب کے اُن تاریخ ساز تخلیق کاروں میں سے تھے جواپنے معجزانہ کلام اور لازوال علمی کارناموں میں زندہ جاوید ہیں۔فاروق ارگلی نے دبستانِ عظیم آباد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ راسخ عظیم آبادی، شاد عظیم آبادی، مبارک عظیم آبادی، جمیل مظہری سے لے کر کلیم عاجز تک زندہ رہنے والی شاعری تخلیق کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں درد،غالب،ناسخ اور آتش کا انداز نمایاں ہے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے جلسے کی ابتدا میں کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ کلیم عاجز ہمارے عہدکے ممتاز غزل گوشعراء میں تھے۔ ان کا کلام اردو شاعری کے خزانے میں ایک قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتاہے۔ برصغیر ہندوپاک ہی نہیں بلکہ اردودنیا میں کلیم عاجز کی شاعری کے پرستار موجود ہیں۔ میں تہنیت پیش کرتاہوں فاروقی ارگلی کوکہ انہوں نے کلیم عاجز کے شعری سرمائے کو یکجا کرکے ہمیں ایسا علمی تحفہ دیاہے جسے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ معروف شاعرمتین امرہوی نے بھی اس محفل میں اپنے منظوم کلام سے کلیم عاجزکو خراجِ عقیدت پیش کی۔اس جلسے میں مختلف علوم و فنون کے افرا دبڑی تعداد میں موجود تھے۔
تصویر میں دائیں سے:ڈاکٹر رضاحیدر،فاروقی ارگلی،پروفیسر اخترالواسع،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،مشتاق احمد نوری اورڈاکٹر خالدعلوی، کلیات کلیم عاجز کی رسم رونمائی کرتے ہوئے۔

Sunday, April 10, 2016

discussion and Seminar

غالب ممکنات کے نہیں ناممکنات کے شاعر :اشوک واجپئی 
دیوان غالب کی پہلی اشاعت کے ۱۷۵ سال مکمل ہونے پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں پُروقار سمینارومذاکرہ کا آج افتتاح ہوا۔اس افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹرایس وائی قریشی نے کہاکہ غالب کی طرح کسی شاعرکووہ شہرت حاصل نہیں ہوئی جتنی غالب کوہوئی ۔غالب کے اندربہادری اورحمیت بہت تھی ۔ہمیں یہ سوچنا ہوگاکہ غالب کی شاعری اور ان کے پیغامات کو ہم کس طرح عام کرسکتے ہیں ۔اس پروگرام میں معروف اردو ناقد وناول نگارپروفیسر شمس الرحمان فاروقی نے بھی شرکت کی اور پرمغز تقریر فرمائی ۔فاروقی نے کہا کہ یہ سال غالب کے حوالے سے ایک اورطرح سے اہم ہے وہ یہ کہ غالب نے پہلی بار ۱۹۱۶ء میں دیوان غالب مرتب کیاتھا۔معروف ہندی ادیب اشوک واجپئی دیوان غالب بھارتی تہذیب کا اساسی صحیفہ ہے ۔چند اہم بھارتی تہذیبی کتابوں میں دیوان غالب کو شامل کرنا ناگزیر ہے۔گوکہ غالب فلسفی نہیں لیکن اس کے اشعارمیں اس کا مخصوص فلسفہ ہرجگہ نماں ہے ۔مجھے لگتا ہے غالب ہندوستانی شاعری میں بہت بڑا قنوطی شاعر ہے ۔اس کی شاعری میں بڑے اہم اورہندوستانی اساسی شعراکی طرح بڑکپن پایا جاتا ہے ۔غالب کے یہاں اپنے وجودکے بے فائدہ ہونے کا احساس بہت نمایاں طورپرپایا جاتا ہے ۔غالب ممکنات کے نہیں ناممکنات کے شاعر ہیں ۔پروفیسروشوناتھ ترپاٹھی نے کہاکہ غالب ہندی والوں میں بھی خاصے مشہورہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ شاید ہی کوئی شاعرہو جسے ہندی والے اتنا پڑھتے ہیں جتنا غالب کو ،لوگوں نے اپنے اپنے غالب کو تلاش کرلیا ہے میں نے بھی اپنے غالب کو تلاش کیا ہے ۔غالب نے اپنے حوالے سے بہت دردناک باتیں بھی اپنے خطوط میں درج کی ہیں ۔ غالب کے علاوہ مجھے ایسا کوئی دوسراشخص نظرنہیں آتا جو بیک وقت نثر ونظم میں ماہر ہو ۔غالب کی شاعری میں مجھے دوچیزوں بہت متاثر کرتی ہیں ایک تو وہ سوال بہت کرتے ہیں ۔غالب اپنی بے بسی کو عجیب تیورمیں بیان کرتاہے ۔ہرجگہ شک وشبہ پیداکرتاہے ۔وہ چاہتاہے کہ ہر چیز اس کے مطابق ہو۔راجیہ سبھا کے رکن اور ماہرغالبیات پون ورمانے کہاکہ میں نے اپنی کتاب جس کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے اور اس اردو ترجمے کو ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔جب میں نے لکھی تو کوئی اسے چھاپنے کو تیارنہیں تھا۔میں نے اپنی کتاب میں ان کی متعدد غزلوں کاانگلش میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔میں چاہتاہوں کہ غالب پرجتنا کام ہورہا ہے ۔ا س سے زیادہ کام ہوناچاہئے ۔چوں کہ غالب ہماری گنگاجمنی تہذیب کے علمبردارہیں اور ان سے ہمیں اپنی تہذیبی وراثت کوآگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے ۔پروفیسرمہرافشاں فاروقی نے کہاکہ دیوان غالب کے نسخہ حمیدیہ کی ڈجیٹل کاپی غالب انسٹی ٹیوٹ کوپیش کرتے ہوئے میں فخرمحسوس کررہی ہوں۔۱۹۲۱میں اس دیوان کی اشاعت کے بعد خاصی گفتگو ہوئی ۔شہاب ستارنے نسخہ حمیدیہ کی اصل کاپی مجھے دی اور انہوں نے کہاکہ میں اسے شائع کرناچاہتاہوں آپ مقدمہ لکھ دیں ۔اب یہ نسخہ شائع ہوچکا ہے مجھے امید ہے کہ آپ حضرات اس سے استفادہ کریں گے ۔ڈاکٹررخشندہ جلیل نے کہاکہ غالب نے چارسالہ سفرکیا ،جس پر میں نے کام بھی کیا ہے۔غالب کلکتہ جس مقصدکے لیے گئے وہ مقصدپورانہیں ہوتا۔وہاں کی ناکامی کے باوجود وہ دلی آکر خط وکتابت بھی کرتے ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ غالب کو چھوٹے موٹے نوابوں اور راجاوں کو قصیدہ خوانی میں دشواری ہوتی تھی ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرڈاکٹرسیدرضاحیدرنے نظامت کرتے ہوئے کہاکہ دنیائے شاعری کے چند ممتاز شعرا کے شعری سرمائے کو جمع کیا جائے تو یقیناًدیوانِ غالب اُن میں سے ایک ہوگا۔ ملک و بیرون ملک کی جتنی بھی اہم زبانیں ہیں اُن میں کلامِ غالب کا ترجمہ ہوچکاہے۔ ہندوستان کے جتنے بھی بڑے ادباء و شعراء ہیں وہ غالب کے اشعار کواپنی تقریروں میں کوڈ کرنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ غالب کے دیوان کی شہرت صرف خواص میں ہی نہیں ہے بلکہ عوام کی بہت بڑی تعداد بھی دیوان غالب کو اپنے گھروں میں سجا کر رکھتی ہے۔ ان ہی تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ نے غالب کی مزید بازیافت کے لیے ایک عمدہ موقع تلاش کیاہے۔ دیوانِ غالب کی پہلی اشاعت ۱۸۴۱ء میں غالب کی زندگی ہی میں دلّی کے مشہور پریس سیدالاخبار سے ہوئی تھی۔ ۱۸۴۱ء سے لے کر ۲۰۱۶ء تک کے اس ۱۷۵سالہ سفر میں آج بھی دیوانِ غالب پوری ادبی توانائی اور تازگی کے ساتھ سبھی کے دلوں میں رچا بسا ہے۔مذاکرے کے بعدنوجوان فن کارفوزیہ اور فضل کی داستان گوئی بھی جلسہ کی زینت میں اضافہ کیا ۔مہمانوں کی خدمت میں دیوان غالب ،غالب اور عہد غالب اور مومینٹوپیش کیا گیا ۔
دوسردن سمینارکے تین سیشنز ہوئے جس کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ ۱۷۵سال دیوان غالب کی ترتیب کو مکمل ہوچکے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک سمینارفارسی دیوان کے حوالے سے بھی منعقد کیا جائے ۔غالب کی شاعری میں متعدد مقامات پر اسلامی تلمیحات بھی ملتی ہیں ۔ہمیں شاعری کی اہمیت وافادیت کو سمجھنا چاہئے چوں کہ شاعری کی موت زبان کی موت ہے اورشاعری اردوکی زندگی ہے ۔اس اجلاس کے دوسرے صدرپروفیسرانیس اشفاق نے کہاکہ غالب کے تعلق سے تحقیق طلب چیزیں ابھی سامنے آتی رہیں گی ۔ابھی غالب پرتحقیق وتنقید کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔متن خوانی کے حوالے سے بہت اہم لوگوں سے بھی غلطیاں سرزدہوجاتی ہیں ،جس کا اظہارغالب کے دیوان کی ترتیب وتدوین کے دوران بھی ہوتا رہاہے ۔گہرائی کے ساتھ مطالعے کی شرط یہ ہے کہ متن اپنی اصل شکل میں موجود ہو ۔یہ مقام مسرت ہے کہ شمس بدایونی اور ظفر احمد صدیقی ہمارے درمیان موجود ہیں ،بزرگوں کی عدم موجودگی میں ان حضرات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے،جو متن پرغوروخوض کرتے ہیں ۔پہلے اجلاس میں جے این یو کے ریسرچ اسکالرعبدالرحیم نے غالب کی شاعری میں سائنسی تصورات،ڈاکٹرمحمد کاظم نے غزلیات غالب کامعشوق اورشاعری کی اخلاقیات ونفسیات ،ڈاکٹرشمس بدایونی نے دیوان غالب کی پہلی اشاعت اورپروفیسرظفراحمد صدیقی نے نسخۂ حمیدیہ :دریافت ،گم شدگی اوربازیافت کے موضوعات پر اپنے مقالات پیش کیے ۔پہلے اجلاس کی نظامت کے فرائض سیدعینین علی حق نے بخوبی انجام دیے ۔ دوسرے سیشن میں صدارتی تقریرکرتے ہوئے معروف ناقد وناول نگاراورمحقق پروفیسرشمس الرحمان فاروقی نے مقالہ نگاروں کی کاوشوں، ان کے مقالات اور غالب انسٹی ٹیوٹ کی کاوشوں کو سراہا۔اس موقع پرانہوں نے کہاکہ ہماری زبان کی اپنی مخصوصی شناخت ہے اس کے مطابق ادائیگی کو یقینی بنانا چاہئے ۔یہاں آکرمجھے خوشی ہوئی کہ مقالات آج اچھے پڑھے گئے میری سوچ غلط ثابت ہوئی ۔قصیدہ ،غزل ،رباعی کی شعریات ایک ہی ہے ۔شعربننے کا طریقہ ایک ہی ہے ۔کئی بارقصیدے کا شعرغزل میں ڈال دیا جائے اور غزل کا شعرقصیدے میں تو حیرت نہیں ہوتی ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ متن پرغورکرنے والے افراد موجود ہیں ۔نئی نسل کے لوگ شاعرکے دماغ میں داخل ہوناچاہتے ہیں ۔اس سے ان کی دلچسپی کا اظہارہوتا ہے اور یہ بھی سوچنے کا ایک طریقہ ہے ۔فاروقی نے اپنی صدارتی گفتگو میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور اس کے ارتقاپربھی پرمغز باتیں کیں۔انہوں نے کہاکہ اکبر کے زمانے میں پریس بھارت آیاتھامگرانہوں نے اس پرتوجہ نہیں دی شاید ان کے پیش نظرفن خطاطی کی اہمیت تھی ۔وہ خطاطی کو جاری رکھنا چاہتے تھے ۔اس اجلاس کے دوسرے صدرسیدشاہد مہدی نے سیشن میں پڑھے گئے مقالات کوسراہااورکہاکہ اس سمینارمیں عبدالرحمان بجنوری پربھی کوئی مقالہ ہوناچاہئے چوں کہ غالبیات کے حوالے سے تمام تراختلافات کے باوجود انہیں نظراندازنہیں کیا جاسکتااورایسے وقت میں جب نسخہ حمیدیہ پرگفتگوہورہی ہے ہم بجنوری کوکیوں کرفراموش کرسکتے ہیں ۔اس اجلاس میں سیدثاقب فریدی نے نسخہ حمیدیہ میں غالب کے مقطعے،ڈاکٹرسرورالہدی نے غالب کی غزل میں غبارکااستعارہ،پروفیسرمہرافشاں فاروقی نے غالب کادیوان مطبوعہ کتابوں کارواج ،پروفیسرانیس اشفاق نے اردوشاعری غالب کے بغیر کے عناوین پراورپروفیسرمولابخش نے اپنے مقالات پیش کیے۔دوسرے اجلاس کی نظامت ڈاکٹرممتازعالم رضوی نے کی ۔تیسرے اجلاس میں دلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر عالیہ،ڈاکٹرابوبکرعبادنے اردوشاعری کاہندی مجددغالب ،مشتاق تجاری نے دیوان غالب خطوط غالب کے آئینہ میں ،پروفیسراحمدمحفوظ نے غالب کی مقبولیت اورغالب کی مشکل پسندی اورپروفیسرعلی احمد فاطمی نے غالب اورجدیدذہن کے موضوعات پراپنے اپنے مقالات پیش کیے ۔سمینارکے تیسرے اورآخری اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسرصادق نے کہاکہ ایک وقت تھاجب اردوکے فروغ اور اس کے ارتقاکے امکانات روشن ہونے کے باوجود ہماراشاعرفارسی کو اہمیت دے رہاتھااورفارسی کے کلام کے زیادہ اہم گمان کرتاتھا۔اس موقع پرانہوں نے شمس الرحمان کی علمی اورمشاہداتی صلاحیتوں کو بھی سراہا۔پروفیسرصدیق الرحمان قدوائی نے اپنی صدارتی تقریرمیں کہاکہ غالب غیرمعمولی ذہن اور ذہنیت کا انسان تھااورغیرمعمولی باتیں غیرمعمولی ذہنوں سے ہی نکلتی ہیں ۔غالب نے اپنے عہد کی تبدیلیوں کو محسوس کیا اور آئندہ دنیا کو بھی اپنی نگاہوں سے دیکھ لیا تھا۔ سمینارکے اختتام پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرڈاکٹرسید رضاحیدرنے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیااورناقابل فراموش مقالات پیش کرنے کے لیے مقالہ نگاروں کو مبارک باد دی ۔آخری اجلاس کی نظامت محمد محضررضانے کی ۔واضح رہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تماما مہمانوں اورمقالہ نگاروں کی خدمت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کامومینٹوبھی پیش کیا ۔