Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Sunday, May 29, 2016

غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقد فخرالدین علی احمد میموریل لکچر

تہذیبی ومذہبی اورثقافتی تصادم کے خاتمے کافلسفہ صرف صوفیوں کے پاس:جسپال سنگھ

غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقد فخرالدین علی احمد میموریل لکچرمیں پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ کے وائس چانسلر کااظہارخیال

نئی دہلی :غالب انسٹی ٹیوٹ میں سابق صدرجمہوریہ ہنداور غالب انسٹی ٹیوٹ کے بانی فخرالدین علی احمد کی یاد میں۲۸ مئی کو میموریل لکچر کا انعقاد کیا گیا ۔تصوف اورسماج پراس کے اثرات کے موضوع پراپناتوسیعی خطبہ دیتے ہوئے پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ کے وائس چانسلر ڈاکٹرجسپال سنگھ نے کہاکہ تصوف کی مزید تفہیم کے لیے میں نے اس موضوع پرتقریر کے لیے خود کوتیارکیا ہے۔مذاہب اورروحانیت کی دنیا میں تصوف کا جو اپنا منفردو ممتاز مقام ہے اس سے سرموانحراف کی گنجائش قطعی نہیں ہے۔ہرمذہب میں کسی نہ کسی صورت میں صوفی ازم موجود ہے ۔دراصل خداسے مربوط ہونے اور اس کے عرفان کو یقینی بنانے کے لیے عشق ومحبت کی راہ پرچلنے کا نام ہی صوفی ازم ہے ۔محبت اورمٹھاس کی راہ تصوف اورصوفیوں کی راہ ہے ۔نظریہ وحدۃ الوجود صوفیت کی بنیاد ہے ۔تصوف مخصوص طرز حیات کانام ہے۔تصوف وحدت میں کثرت کاترجمان اور طالب وکیل ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ تکثیریت خداکی دین ہے کہ اس نے اپنی اس دنیا کے لیے مختلف ومنفرد مذاہب کوپیداکیا ۔مختلف رنگ ونسل کے افراد کی تخلیق کی اورتکثیریت کے جولوگ مخالف ومعاند ہیں وہ دراصل خداکے مخالف ہیں ،اس کے فیصلوں کے مخالف ہیں ۔تصوف کی راہ میں رسم ورسوم تعلیم سے اعلی وافضل اخلاقیات کی عملی تعلیم ہے ۔سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایاکہ انسان کو دریاکی سی سخاوت ،سورج کی سی شفقت اورزمین کی سی تواضع اختیارکرنی چاہیے ۔خواجہ ہند کے یہ اقوال بالخصوص اس زمانے کے لیے بہت ہی اہم ہیں ۔غیروں کی غیریت کواہمیت دینا تصوف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صوفیوں کے یہاں مکالمے کی بڑی اہمیت ہے وہ خود کو ہی اعلی وارفع گمان نہیں کرتے دوسروں کی شناخت ،ان کی اہمیت اوران کی شخصیت کے تحفظ اورقدردانی کو اپنافرض منصبی قراردیتے ہیں ۔اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس جدید تردنیا میں جاری وساری اختلافات وتصادم تصوف کے نظریہ کو اختیارکرکے ہی ختم کیا ساسکتا ہے اورجب ہم ان عادتوں کو اختیارکرلیتے ہیں تو صوفی کہلاتے ہیں ۔تصوف کو اختیارکرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ہندو،مسلم ،سکھ ،عیسائی کوئی بھی صوفی ہوسکتا ہے ۔صوفیوں کے سجدے نمائشی نہیں ہوتے ان کے سروں کے ساتھ دل بھی بارگاہ خدابندی میں جھک جاتے ہیں ۔جب سرجھک جائے اوردل نہ جھکے توسجدہ نہیں ہوتا۔وفاداری کے بغیر سجدہ کبھی سچا نہیں ہوتا ۔صوفی عملی زندگی اختیارکرتے ہیں ان کے اقوال وافعال میں تضادات نہیں پائے جاتے نہ وہ تضادات کو کسی صورت میں برداشت کرتے ہیں ۔تہذیبی ومذہبی اورثقافتی تضادات کواگرکوئی چیز ختم کرسکتی ہے تووہ تصوف ہے ۔صرف اورصرف صوفیوں کے پاس وہ فلسفہ ہے ،جودنیا کو ٹکراؤ اورتصادم سے دورکرسکتا ہے ۔اگرہم آپسی نزدیکیوں کے خواہاں ہیں تو ہمیں صوفیوں کی راہ پرچلنا ہوگا۔ہماراطرزحیات اورنظریہ حیات میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے اگرہم صوفیوں کی راہ پرچلنے لگیں ۔ڈاکٹر جسپال سنگھ نے اس موقع پرپنجاب اور ،سکھوں اور تصوف کی مستحکم باہمی روایت کو بھی بیان کیا۔انہوں نے متقدمین صوفیہ میں سے معروف صوفی بزرگ ،پنجابی شاعر ،دانش ور اورخواجہ نظام الدین اولیا کے شیخ حضرت بابافریدالدین گنج شکر کی شاعری اورگروگرنتھ میں شامل ان کے دوہوں کو پڑھ کرسنایا اور اس کے فنی وہیئتی اور اسلوبی خصوصیات کے علاوہ ان میں پائی جانے والی صوفی تعلیمات کو بھی بیان کیا۔اس کے علاوہ گرونانگ ،گروگرنتھ صاحب اور بابافرید کی اولاد وجانشین سے گرونانک صاحب کے باہمی مستحکم تعلقات کوبھی واضح کیا۔اس موقع پراپنی صدارتی گفتگومیں سابق صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد کے صاحبزادے اورغالب انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ڈاکٹرپرویزعلی احمد نے بابافریدسے اپنے نانی ہالی شجرے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ زمانے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ مناسب ہے اوروہ ہمارے مسائل کاحل تلاش کرسکتی ہے تووہ تصوف ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ آج کے لکچرنے نہ صرف ہمارے مسائل اوران کاحل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اس سے ہمیں کئی باتیں معلوم ہوئی ہیں ۔بابافرید کے دوہے ،ان کے کلام اورسکھوں سے بابافرید کے خاندان کے تعلقات سن کر محظوظ ہواہوں ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسرصدیق الرحمان قدوائی نے اپنے تعارفی کلمات میں کہاکہ ڈاکٹرجسپال سنگھ ہمارے کے لیے نئے نہیں ہیں ۔انہوں نے دہلی سے ہی اپنے اکیڈمک کیریئر کا آغاز کیا ہے اوربرسوں یہاں رہے ان سے ہم متعارف ہیں اور ان کی کتابیں دیکھتے اورلکچرسنتے رہے ہیں ۔اکیڈمک سطح کے اعلی عہدوں کے ساتھ ہی ساتھ یہ ڈپلومیٹ بھی رہ چکے ہیں ۔بھارت کی جانب سے دوممالک میں سفیر بھی رہے ہیں ۔ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی نیت سے انہیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس اہم فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کے لیے مدعو کیاگیا ہے ۔انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹرسید رضا حیدرنے جلسہ کے افتتاح میں کہاکہ ہندوستانی صوفیہ کی خدمات اورمذاہب کے تئیں ان کے جذبات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔خانقاہیں ایسے مراکز ہیں جہاں ذرّہ برابر بھی امتیاز نہیں پایاجاتا ہے۔ وہاں سے مذہب وملت کی تفریق کے بغیرتمام مذاہب کے پیروکار کسب فیض کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ خانقاہوں کی اہمیت وافادیت ہردورمیں مسلّم رہی ہے ۔انہوں نے میموریل لکچر کے لیے منتخب موضوع پرگفتگوکرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ آج جس شخصیت کو لکچرکے لیے مدعو کیا گیا ہے وہ تصوف سے خاصی دلچسپی رکھتے ہیں اورتصوف کے حوالے سے ان کے متعدداہم کام سامنے آچکے ہیں ۔ڈاکٹرجسپال سنگھ کا تعلق پنجاب سے ہے اورپنجاب ہندوستان میں صوفیوں کاسب سے بڑااوراہم مرکز رہا ہے ۔ ڈاکٹرجسپال سنگھ کو غالب انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین اوراس پروگرام کے صدرڈاکٹرپرویزعلی احمد نے اس خاص موقع پرغالب انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہونے والی کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا۔اس پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے جسٹس بدردریزعلی احمد بھی موجود تھے ۔ان کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر شاہد مہدی، اے رحمان ،پروفیسرشریف حسین قاسمی ،متین امروہوی ،پنجابی یونیورسٹی کے بابافرید صوفی اسٹڈیز کے ڈائرکٹرپروفیسرناشرنقوی ،پاکستان ہائی کمشنرکے نمائندہ طارق کریم،ڈاکٹرجمیل اختر،ڈاکٹرابوبکرعباد،مولانانبیل اختر، ڈاکٹراشفاق عارفی ، ڈاکٹر شعیب رضا خاں اورغالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔


Monday, May 9, 2016

دو روزہ قومی سمینار

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام فارسی و اردو کے ممتاز نقاد،محقق ، دانشور اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے 
سابق چیئرمین پروفیسر نذیراحمدکی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں دو روزہ سمینار بعنوان ’’1947 کے بعد فارسی زبان و ادب اور پروفیسر نذیراحمد‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔سمینار کے افتتاحی اجلاس میں انسٹی ٹیوٹ آف پرشین ریسرچ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ڈائرکٹر پروفیسر آذر میدُخت صفوی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ میں ان کی شاگرد ہوں اور مجھے یہاں کلیدی خطبے کے لیے مدعو کیا گیا ہے یہی میرے لیے اعزاز و افتحار ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا پہلا مقالہ نذیر صاحب کی سرپرستی میں غالب انسٹی ٹیوٹ ہی میں پیش کیاتھا۔ اس ادارے کے استحکام جہاں تمام اکابرین کا اہم رول ہے وہیں غالب انسٹی ٹیوں کے مقاصد کو مستحکم اور فروغ دینے میں پروفیسر نذیر احمد کابھی اہم کردار رہا ہے۔ ان کے علم و تحقیق کا دائرہ نہایت ہی وسیع تھا۔ وہ کلاس میں جو نصاب پڑھاتے تھے وہ آج طلباء کو نہیں پڑھائے جاتے ہیں۔ زبان شناسی کا سبق وہ ہمیں پڑھاتے تھے جو آج نہین پڑھائے جاتے ہیں جو کہ بہت ضروری ہے۔ محقق کے مزاج میں جو دیانت داری ہونی چاہئے وہ نذیر احمد میں تھی۔ 
خانۂ فرہنگ، جمہوری اسلامی ایران، نئی دہلی کے کلچرل کونسل ڈاکٹر علی دہگائی نے صدارتی خطبے میں ہند و ایران کے تہذیب ، ثقافتی اور ادبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے اسے قدیم قرار دیا۔ انہیں نے مزید کہاکہ پروفیسر نذیر احمد ایک جید عالم تھے جن سے بڑا حافظ شناس کوئی نہیں تھا۔ پروفیسر نذیر نے حافظ کے حوالے سے جو کار نامہ ہندوستان میں انجام دیا اس کی ستائش آج بھی ایران میں کی جاتی ہے۔ مخطوطہ شناسی کے تعلق سے بھی ان کی خدمات کا احاطہ اشد ضروری ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ نئی نسل پروفیسر نذیر احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحقیق کے کارنامے اور فارسی زبان کو فروغ دینے کی مسلسل کوشش کرے گی۔ 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہاکہ پروفیسر نذیر احمد صرف میرے ہی نہیں بلکہ کئی نسلوں کے استاذ تھے۔ فارسی و اردو کی علمی دنیا کا ان کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مختلف ممالک میں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد موجو دہے۔ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ہر سرگرمی میں دلچسپی لیتے تھے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ جس بلندی پر پہنچا ہے وہ نذیر صاحب کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ سمینار ہمارے لیے ہمیشہ یاد گار رہے گا، اس سمینار کی بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ فارسی ادب کا جتنا گہرا رشتہ ہماری تہذیب سے ہے وہ ہم سب جانتے ہیں ، فارسی ہماری رنگوں میں بسی ہوئی ہے۔ فارسی غیر ملکی نہیں بلکہ ملکی زبان بھی ہے۔ عرصہ دراز تک فارسی کے بغیر ہمارا کوئی بھی علمی کا م مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان و ادب کے حوالے سے بھی اہم کار نامے انجام دیے ہیں اور ضرورت ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ 
فارسی کے اہم دانشور پروفیسر شریف حسین قاسمی نے تعارفی کلمات میں کہاکہ میں پروفیسر نذیر احمد کے ان ہزاروں شاگردوں میں شامل ہوں جو آج بھی ان کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں۔ نذیر صاحب نے تین چار فرہنگیں بھی لکھی ہیں ان کا یہ کام ناقابل فراموش اور ادب کے سرمائے میں بڑا اضافہ ہے۔ نذیر صاحب نے یہاں سے پی ایچ ڈی کی اور ایران گئے، جہاں ان کی قدر و منزلت کا عالم یہ تھا کہ ان کے اساتذہ بھی انہیں دیکھ کر اٹھ جایا کرتے تھے۔ ایرانیوں نے انہیں اس قدر توجہ سے پڑھا کہ ہم اس کا حق بھی ادا نہیں کر سکتے۔ ایرانی حضرات ان سے وابستہ لوگوں کی بھی قدر کرتے ہیں۔ نذیر صاحب کے بارے میں ایرانی حضرات کہتے ہیں کہ وہ ایران کے پہلے محقق تھے۔ ہمیں اپنے فارسی ادبا کو بھلانا اور فراموش نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ان لوگوں کا اپنے اپنے عہد میں اہم تعاون رہا ہے۔ شعب�ۂ فارسی دہلی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر چندر شیکھرجواس جلسہ میں مہمانِ اعزازی کے طورپر موجود تھے، انہوں نے کہاکہ پروفیسر نذیر احمد وہ قد آورمحقق تھے اور انہوں نے تحقیق کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اسے علمی دنیا میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہاکہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ سے درخواست کروں گا کہ وہ فارسی کے اساتذہ اور علماکا سوانحی خاکہ مرتب کریں تاکہ ان کی یادیں تازہ رہ سکیں۔ اس میں وہ تمام اساتذہ شامل ہوں جنہوں نے کسی بھی طور پر فارسی کی خدمت کی ہو۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدر نے افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہاکہ پروفیسر نذیراحمدفارسی زبان وادب کے ایک جیّد عالم تھے انہو ں نے بیک وقت مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اگر ہم پروفیسر نذیراحمدکواردو و فارسی ادب کی آبرو کہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے سوسے زیادہ کتابیں تحریر کیں اور ان کے بے شمار مضامین ہمیں آج بھی علمی روشنی عطا کر رہے ہیں۔ جب ہم ان کے علمی کارناموں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دورِ جدید میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔انہوں نے اردو اور فارسی کااتنا قیمتی ذخیرہ چھوڑاہے جس سے کئی نسلیں فیضیاب ہوتی رہیں گی۔ ہمیں بے انتہا خوشی ہے کہ آج ہم اس شخص کو یاد کر رہے ہیں جس نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی شکل میں ایک ایسا علمی پودااُگایاجو آج ایک تناوردخت کی شکل اختیار کرچکاہے اور جس کے سائے میں بیٹھ کر ہم اردو اور فارسی دنیاکوعلمی پیغام دے رہے ہیں۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر پروفیسر نذیر احمد کی صاحبزادی اور دہلی یونیورسٹی،شعبۂ فارسی کی سابق صدر،پروفیسر ریحانہ خاتون نے تمام حضرات کا اظہارِتشکّر ادا کیا۔افتتاحی اجلاس کے بعدسمینار کا پہلا اجلاس منعقد کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر آذرمی دخت صفوی، پروفیسر قمر غفار اور پروفیسر علیم اشرف نے کی جب کہ نظامت کے فرائض شعبہ فارسی دہلی یونیو رسٹی کے استاذ ڈاکٹر اکبر علی شاہ نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں پروفیسر عراق رضا زیدی، ڈاکٹر اخلاق احمدآہن ، پروفیسر سید محمد اسد علی خورشید، ڈاکٹر جمشید خان اور ڈاکٹر قمر عالم نے اپنے مقالوں میں پروفیسر نذیر احمد اورسمینار کے موضوع کے تعلق سے علمی گفتگو پیش کی۔ 
دوسرے دن تین اجلاس کا انعقاد ہوا۔ سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں صدارت پروفیسر عبدالقادر جعفری اور پروفیسر ریحانہ خاتون نے کی جب کہ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر سرفراز احمد خان نے انجام دیا۔ پروفیسر آصف نعیم، ڈاکٹر محمود فیاض ہاشمی، ڈاکٹر احتشام الدین اورڈاکٹر نکہت فاطمہ نے اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر عبدالقادر جعفری نے صدارتی گفتگو میں کہاکہ تمام مقالات میں پروفیسر نذیر احمد اور فارسی زبان و ادب کے حوالے سے مکمل گفتگو کی گئی ، خصوصاً پروفیسر آصف نعیم کا مقالہ اپنی نوعیت کا منفرد مقالہ تھا۔پروفیسر ریحانہ خاتون نے بھی موضوع کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ تیسرے اجلاس میں پروفیسر شریف حسین قاسمی ، پروفیسر آصف نعیم اور پروفیسر اختر مہدی نے صدارتی فریضے کو انجام دیااور نظامت ڈاکٹر کلیم اصغر نے کی۔ اس سیشن میں پروفیسر عبدالقادرجعفری، پروفیسر علیم اشرف،پروفیسر ریحانہ خاتون اور ڈاکٹر سرفراز احمدخان نے مقالات پیش کیے۔تیسرے اجلاس کے تمام مقالات موضوع اور معنی کے اعتبار سے کافی اہم تھے جس پر سامعین حضرات نے بھی وقفہ سوالات میں اظہار خیال کیا۔ صدارتی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم اگر سبھی ایک موضوع پر مقالے پیش کر رہے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف علمی گوشوں پر بھی روشنی ڈالی جائے تاکہ سمینار کا حق ادا ہوسکے۔سمینار کے جہاں کئی مقاصد ہوتے ہیں وہاں ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم مقالات کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک دستاویز کی شکل میں پیش کریں۔آپ نے مزید کہاپروفیسر نذیر احمدکبھی اعزازات کے متلاشی نہیں رہے بلکہ انہیں جو اعزازات ملے وہ ان کے لیے نہیں بلکہ ان تمام اعزازات کے لیے اعزاز کی بات تھی۔ نذیر صاحب بڑے صاحب نظر تھے،ان کی ہمیشہ کوشش رہتی تھی کہ غالب انسٹی ٹیوٹ فارسی کے اہم علماء اور ادبا پر مسلسل علمی و تحقیقی کام کرتا رہے اور آج یہ سب کچھ انہی کی خواہشوں کا نتیجہ ہے۔ پروفیسر اختر مہدی نے کہاکہ پروفیسر نذیر احمد علم و ادب کے وہ درخشاں ستارہ تھے جنہیں جہان فارسی میں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اہم موضوع پر سمینار منعقد کیا ہے۔ پروفیسر آصف نعیم نے بھی اپنے مقالے میں پر مغز گفتگو کی۔ تیسرے اور اختتامی اجلاس میں بطور صدر پروفیسر محمد یوسف ، ڈاکٹر اخلاق آہن موجود تھے اس اجلاس میں نظامت کا فریضہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،شعبہ فارسی کی ریسرچ اسکالر رفعت مہدی رضوی نے انجام دیا۔پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر قمر غفار، ڈاکٹر کلیم اصغر، ڈاکٹر مہتاب جہاں، ڈاکٹر اکبر شاہ اور ڈاکٹر مسرت فاطمہ نے اس اجلاس میں مقالے پیش کیے۔ان دو دنوں کے سمینار میں تقریباً ۲۵ سے زائد مقالات پیش کیے گئے۔اس سمینار کی خاص بات یہ تھی کہ تمام مقالہ نگار اور صدور حضرات نے پروفیسر نذیر احمد کے علم و دانش کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ان کی متعدد کتابوں کے تعلق سے بھی اہم گفتگو کی۔ سمینار میں پروفیسر نذیر احمد کی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ 1947کے بعد کے فارسی کے علماء اورپرفیسر نذیاراحمد کے معاصرین کی علمی خدمات پربھی روشنی ڈالی گئی جنہوں نے فارسی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سمینار میں دہلی و بیرون دہلی کے اساتذہ ، ریسرچ اسکالر کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد کثیر تعداد میں موجود تھے۔ سمینار کے اختتام سے پہلے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر نے تمام سامعین ، مقالہ نگار کا شکریہ ادا کیا۔