Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Wednesday, August 31, 2016

اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کی یاد میں تعزیتی جلسہ

غالب انسٹی ٹیوٹ میں اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کی یاد میں تعزیتی جلسہ
غالب انسٹی ٹیوٹ اور انجمن ترقی اردو ہندکے زیر اہتمام ملک و قوم کے عظیم رہنما ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کے انتقال پر ایوانِ غالب میں ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیاگیاجس میں پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر اطہر فاروقی، مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ڈاکٹر حنیف ترین، ڈاکٹر رضاحیدرکے علاوہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے صاحبزادے مونس قدوائی نے اظہارِ تعزیت پیش کی۔ پروفیسر اخترالواسع نے اپنی تعزیتی گفتگو میں فرمایاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی بنیادی طوپرایک بڑے سائنس داں تھے مگر انہوں نے ملک و قوم کی ترقی کے لیے بڑے سے بڑاعہدہ قبول کیااور جس شعبے سے وابستہ رہے اپنی ذہانت و قابلیت سے اُس شعبے کو بلندیوں تک پہنچایا، انہوں نے مزید کہاکہ محمد شفیع قریشی بھی ایک بے باک انسان تھے اور انہوں نے بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی خاصیت یہ تھی کہ وہ سماج کے ہر طبقے کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ جب وہ ہریانہ کہ گورنر ہوئے تو انہو ں نے اس ریاست کے سب سے پسماندہ علاقے میوات کی عوام کی ترقی کے لیے نہایت ہی اہم اور بنیادی امور انجام دیے۔ جس ریاست کے بھی گورنر رہے اُس ریاست کی ترقی، تعلیم اور اقتصادی خوشحالی اُن کی ترجیحات میں تھی۔ مرحوم محمد شفیع قریشی بھی ہمارے اُن اکابرین میں سے تھے جنہوں نے کبھی اصولوں سے سمجھوتا نہیں کیا۔ اِن دو عظیم رہنماکا ایک ساتھ رخصت ہوجانا ہم سب کے لیے کسی بڑے نقصان سے کم نہیں ہے۔ انجمن ترقی اردوکے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے فرمایاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی بڑے سے بڑے منصب پررہے مگر اردوزبان و ادب کی ترقی کے لیے بھی ہمیشہ کام کرتے رہے۔ انجمن ترقی اردو ہند کے علمی معاملات میں کافی دلچسپی لیتے تھے اور ادارے کے لیے ان کی خدمات کا ہمیشہ اعتراف کیا جائے گا۔ مفتی عطاء الرحمن قاسمی نے کہاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی جیسی ہستی صدیوں میں پیدا ہوتی ہے،بڑے عہدوں سے وابستگی کے باوجود، قناعت پسندی اور انسان دوستی اُن کی زندگی کا سب سے خاص عنصر تھا، بہا رکے گورنر رہتے ہوئے انہوں نے سماجی، علمی اور مذہبی شعبے میں جوگراں قدر خدمات انجام دی ہیں اُسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،ڈاکٹر حنیف ترین نے اپنے تعزیتی کلمات میں فرمایاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی نے انسانیت کی خدمات کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے صاحبزادے مونس قدوائی نے بھی اپنے تاثراتی کلمات میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور انجمن ترقی اردو ہندکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اِن دوبڑے اداروں نے ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی خدمات کااعتراف کیاجس کے لیے میں ذاتی طورپر شکریہ ادا کرتاہوں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے جلسے کی ابتدامیں اِن دونوں مرحومین کو اظہارِ تعزیت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کاسیاسی، سماجی اور علمی سفر اتنا طویل تھاکہ اُس پر جتنا بھی اظہارخیال کیا جائے کم ہے۔ ہندستانی سیاست میں ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی نے لمبے عرصے تک اپنی موجودگی کااحساس کرایااو ربہار،بنگال، ہریانہ کے گورنر، دلّی کے لیفٹننٹ گورنر، ممبرراجیہ سبھا، چیرمین، یونین پبلک سروس کمیشن کے علاوہ جن جن عہدوں سے وابستہ رہے آپ نے اپنی ذہانت، محنت، ایمانداری، دیانت داری، خلوص اور دلچسپی کے ساتھ تمام عہدوں کی عزت وآبرو کوبرقرار رکھا۔یہ دونوں حضرات غالب انسٹی ٹیوٹ سے بھی وابستہ تھے اور اِن کی وابستگی سے ادارے کے وقارمیں ہمیشہ اضافہ ہوتارہا۔ اس جلسے میں ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لے بڑی تعداد میں مختلف شعبوں کے لوگ موجود تھے۔ 

Wednesday, August 24, 2016

سابق گورنراخلاق الرحمن قدوائی کی رحلت پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں تعزیتی جلسہ

کئی صوبوں کے سابق گورنر، سابق ممبر راجیہ سبھا، سابق چیرمین یونین پبلک سروس کمیشن و ٹرسٹی، غالب انسٹی ٹیوٹ ، ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے انتقال پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں فوراً ایک تعزیتی جلسے کاانعقاد کیاگیا۔اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی رحلت ہم سبھی کے لیے ایک بڑے المیے سے کم نہیں ہے۔ مرحوم ایک طویل مدت تک بڑے سے بڑے منصب پر فائز رہے مگر ہرایک کی خوشی و غم میں برابر شریک رہے، دوسروں کے دکھ میں خودکو اور اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک رکھنا آپ کی زندگی کانصب العین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے انتقال سے اُن سے وابستہ تمام افراد پر سوگواری کا عالم ہے۔ جس ادارے سے بھی آپ وابستہ رہے اُس ادارے کواپنی ذہات اور لیاقت سے بلندیوں تک پہنچایا، بحیثیت گورنر آپ جس صوبے میں بھی رہے اُس کی ترقی میں آپ کازبردست کردار رہا۔ موت برحق ہے اور ہر شخص کو اُس کی گرفت میں آناہے۔ مگر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی موت صرف ان کی موت نہیں ہے بلکہ، ایک عہد اور ایک تہذیب کا خاتمہ ہے۔ آپ کی کمی ہمیں ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔میری دعا ہے کہ پروردرگار عالم اُن کے درجات کو بلند کرے اور ہم سبھی کو حوصلہ عطا کرے کہ ہم اس عظیم غم کو برداشت کرسکیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدرنے اپنے تعزیتی پیغام میں کہاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی مدتوں سے غالب انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ رہے اور آپ نے اس ادارے کو فروغ دینے میں نمایاں امور انجام دیے۔ بحیثیت ٹرسٹی اور ایکزیکٹو ممبر آپ ادارے کے تمام معاملات میں کافی دلچسپی لیتے تھے اور ہر ممکن آپ کی یہ کوشش رہتی تھی کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اپنے اغراض ومقاصدکے ساتھ آگے بڑھتارہے۔ ہمیں بے انتہا افسوس ہے کہ آج ہم اپنے ایک بڑے محسن سے محروم ہوگئے۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم آنے والے دنوں میں اُن کے وژن کو لے کرادارے کوعلمی وادبی اعتبار سے مزید مضبوط بنائیں۔ اس تعزیتی جلسے میں ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، عبدالواحد، یاسمین فاطمہ، عبدالتوفیق، محمدعمر، پرویز عالم کے علاوہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اسٹاف نے اپنے گہرے رنج و غم کااظہار کیا۔


Tuesday, August 9, 2016

جے پور میں ایک شام غالب کے نام


غالب انسٹی ٹیوٹ اور راجستھان کا اہم ادبی و ثقافتی ادارہ جواہر کلاکیندر، جے پور کے باہمی اشتراک سے ’’ایک شام غالب کے نام‘‘ کے موضوع پر جے پورمیں ایک بڑے جلسے کاانعقاد عمل میںآیا۔ اس جلسے میں راجستھان کے سابق وزیرِ صحت اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے وائس چیرمین جناب اعمادالدین احمد خاں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے اور پروفیسر علی احمد فاطمی، جناب جگروپ سنگھ یادو، جناب معظم علی، محترمہ انورادھا سنگھ کے علاوہ کئی ادیبو ں نے غالب او رعہدِ غالب کے تعلق سے گفتگو کی۔ اعمادالدین احمد خاں نے اس جلسے کا افتتاح کرتے ہوئے سب سے پہلے غالب انسٹی ٹیوٹ اور جواہر کلاکیندر کو مبارکباد پیش کیا اور فرمایاکہ آج ہم سب کے لیے بڑے اعزازکی بات ہے کہ سرزمین راجستھان پر ہم اُس عظیم شاعرکو یاد کر رہے ہیں جس نے اپنی شاعری کے ذریعے پوری عالمِ انسانیت کو محبت اور بھائی چارگی کا پیغام دیا۔اعماد الدین احمدخاں نے غالب کے حوالے سے فرمایاکہ غالب کی شاعری کی مقبولیت کس حد تک بڑھ رہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ ملک کے بڑے بڑے رہنمابھی اپنی گفتگو میں وزن پیدا کرنے کے لیے غالب کے اشعار کا استعمال کرتے ہیں۔ عام طورسے یہ خیال کیا جاتاہے کہ غالب کے کلام کو پسندکرنے والے صرف ایک طبقے کے لوگ ہیں لیکن یہ ہماری غلط فہمی ہے کیونکہ آج غیر اردوداں طبقے میں سب سے زیادہ غالب محبوب بنے ہوئے ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے اپنی استقبالیہ گفتگو میں کہاکہ اس ادارے کے مقاصد میں اردو وفارسی زبان و ادب کی ترقی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ہم غالب،معاصرینِ غالب اور عہدِ غالب پرملک کے سبھی بڑے شہروں میں جلسے کا انعقاد کریں۔ ہم نے ملک کے متعدد شہروں میں غالب کو یاد کیاہے اور ہمیں خوشی ہورہی ہے کہ ہم جے پور میں بھی غالب پر گفتگو کے لیے موجود ہیں۔آپ نے مزید فرمایاکہ ملک اور بیرونِ ملک میں غالب پر بے شمار سمینار، سمپوزیم اور جلسوں کا انعقا دہوچکاہے، ایک ہزار سے زیادہ کتابیں مختلف زبانوں میں غالب پر شائع ہوچکی ہیں لیکن جب بھی ہم غالب کی شاعری پر گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں تشنگی کااحساس ہوتاہے۔ آج بھی ہمارے علما کلامِ غالب میں نئے نئے معنی و مفاہیم تلاش کرلیتے ہیں۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر علی احمد فاطمی نے فر مایا کہ غالب صرف عظیم شاعر ہی نہ تھے بلکہ بڑے ذہن کے مالک تھے۔ان کی زندگی کے تین واقعات بیحد اہم ہیں۔یتیم ہونا۔دہلی میں منتقل ہونااور کلکتہ کاسفر کرنا۔ زندگی کے رنج و غم اور جدوجہد نے اُن کے دل و دماغ میں حیات وکائنات کا وسیع ترین اور بلند ترین تصور پیش کیا۔ جس کے مختلف و بلیغ اشارے ان کی شاعری میں نظرآتے ہیں۔ کبھی وہ بربادی میں حسرت تعمیر دیکھتے ہیں، کبھی وہ دنیاکو بازیچۂ اطفال سمجھنے لگتے ہیں۔ اورکبھی بیاباں میں بہار کو تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری میں گہرائی کے ساتھ ساتھ دلنوازی بھی ہے۔انہوں نے اپنے ذاتی کرب کو دنیا کے کرب میں ڈھال دیا۔ اورجاتی ہوئی تہذیب کو رخصت کیا تو آنے والی تہذیب کا استقبال کیا۔اسی لیے وہ انسان اور انسانیت۔ تہذیب و معاشرت کے شاعرِ عظیم بن گیے۔اس جلسہ میں جگروپ سنگھ یادو(آئی۔اے۔ایس)، جناب معظم علی سکریٹری راجستھان اردو اکادمی اور اظہارمسرت نے بھی اپنے خیالات کااظہار کیا۔جلسے کے دوسرے حصّے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ غزل سنگر استاد اقبال احمد خاں اور اُن کے شاگردوں نے اپنی خوبصورت آوازمیں غالب کی غزلوں کو پیش کرکے سامعین سے داد و تحسین حاصل کی۔اس جلسے میں بڑی تعداد میں سیاسی رہنما، بیوروکریٹس، وکلا، طلبا، طالبات کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد کثیر تعداد میں جمع تھے۔


 


Thursday, August 4, 2016

غالب توسیعی خطبہ 2016

غالب کی شاعری نوائے سروش سے زیادہ امکانات کے دائرے میں آتی ہے

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام’’غالب توسیعی خطبہ‘‘میں الہ آبادیونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرآرایل ہانگلو کااظہارخیال
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام غالب توسیعی خطبہ بعنوان ’’غالب اور انیسویں صدی‘‘کا انعقاد کیا گیا، جس میں الہٰ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آر ایل ہانگلو نے اپناخطبہ پیش کیا۔ ممتاز مورخ اورجے این یو کے سابق استاذپروفیسر ہربنس مکھیا نے صدارت کی۔ 
پروفیسر آر ایل ہانگلو نے اپنے توسیعی خطبے میں کہاکہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ مکھیا صاحب کے قدموں سے اٹھایا ہے۔ اگر میرا دوسرا جنم ہوا تو میں اردو ادب پڑھنا پسند کروں گا۔ غالب کی حیثیت منفرد و ممتاز ہے، غالب کسی محدود مدت کا شاعر نہیں، وہ ہمیں صدیوں پیچھے بھی لے جاتا ہے اور صدیوں آگے بھی۔ کئی بار لوگوں نے غالب کے کلام کے سیاق و سباق کا خیال رکھے بغیر مفاہیم اخذ کر لیے ہیں۔ غالب نے جب آنکھیں کھولیں تو انگریزوں نے اپنے بال وپر پھیلا لیے تھے،غالب نے اپنے بچپن میں اکبر ثانی کی کسم پرسی دیکھی ،ہندوستان کے دگر گوں حالات دیکھے، حالاں کہ غالب کا بچپن نہایت ہی خوشحالی میں گزرا تھا، اس کے باوجود غالب کا سفر کلکتہ ہماری ادبی تاریخ کا المیہ ہے۔ جب ہم غالب کی تصویر دیکھتے ہیں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ دور رس فکری گتھیوں کو سلجھانے میں لگے ہیں۔اس کے باوجود کہ وہ انیسویں صدی میں موجود تھے یعنی وہ منظر کا حصہ تھے لیکن وہ کبھی منظر نہیں بنتے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ غالب صرف اپنے زمانے کا نوحہ خواں تھا ، مشرقی تاریخ وادب میں غالب وسعت نظری اور فکری پرواز کا ایک کوہ گراں مایہ ہے۔ دہلی کے حالات کو دیکھ کر غالب سمجھ گئے تھے کہ دلی کے دلوں میں اب تیل باقی نہیں ہے اس لیے انہوں نے سفر کیا۔ غالب اپنے زمانے کے سیاسی حالات اور ماحول سے ناواقف نہیں تھے، چوں کہ وہ لال قلعے میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں آتے جاتے ماحول پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر کیا کرتے تھے۔ غالب انگریزوں کی صنعتی ترقی پر حیران تھے غالب عارضی فتوحات سے خوش نہیں ہوتے تھے۔ غالب جانتے تھے کہ انگریزوں کی عمل داری بنگال سے پشاور تک محیط ہے۔ غالب اپنے زمانے کے اس فکر ی رجحان کی نشاط ثانیہ کے علم بردار تھے جس کی طلائی کڑی سر سید احمد خان تھے،جس طرح سر سید تبدیلیوں کے خواہاں تھے اسی طرح غالب بھی معاشرے میں تبدیلیوں کے لیے کوشاں تھے۔ غالب نے پہلی بار گلشن نہ آفریدہ کی بات کی، غالب کی شاعری نوائے سروش سے زیادہ امکانات کے دائرے میں آتی ہے اور ان کا یہ رویہ انہیں غیر روایتی شاعر بنا تا ہے۔ غالب کے افکارشیخ اکبرمحی الدین ابن عربی سے لیکر متاخرین کشمیری صوفی شعرا کی توسیع ہیں۔ 
اس توسیعی خطاب سے پہلیالہٰ آباد یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر علی احمد فاطمی نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ آج اس پروگرام میں دو بڑے مورخین شرکت کر رہے ہیں۔ پروفیسر ہانگلو کے خطبے کا اندازہ ان کی گفتگو کے بعد لگایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ہانگلو کا آبائی وطن کشمیر ہے وہ وہاں درس و تدریس کے پیشے سے بھی وابستہ رہے ۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں سے بھی وابستگی رہی ہے۔ سیکڑوں مضامین اور تقریباً 8کتابیں بھی شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی خدمات کے عوض مختلف اعزازات سے بھی انہیں نوازا جا چکا ہے۔ آپ اردو ، ہندی ، کشمیری کے علاوہ فارسی سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ انہی کامیابیوں کے پیش نظرحکومت ہندنےآپ کوالہٰ آباد یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب کیا ہے۔ 
پروفیسر ہربنس مکھیا نے صدارتی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں غالب کا مداح ہوں مگر میرا بہت زیادہ مطالعہ نہیں ہے، ہانگلو صاحب کاغالبیات پر عالمانہ اور خوبصورت مطالعہ ہے۔اردو کی اعلیٰ شاعری اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہی ہوئی ہے ۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے حوالے سے کسی شاعر کا مطالعہ دلکش ہو جاتا ہے۔ محبت کوجس طرح سے غالب نے سمجھاہے غالباً کسی اور شاعر نے نہیں سمجھا ہے۔ غالب کی غیر مشروط محبت مجھے بہت عزیز ہے۔ غالب کے یہاں زندگی کا درجہ اعلیٰ و ارفع ہے۔ زندگی کی وسعتیں ،اس کی محبت اور ان کے اعلی افکاران کی شاعری کومحدود نہیں ہونے دیتے ۔ 
قبل ازیں خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر نے کہاکہ اس صدی کو سمجھنے کے لیے غالب کو سمجھنا اشد ضروری ہے ، یہ غالب کی ہی نہیں بلکہ زبان و ادب کی صدی ہے۔ اس صدی کی اپنی تاریخی نوعیت ہے ۔آج کا یہ خطبہ اہمیت و افادیت کا حامل ہے ، خطبے کی اشاعت بہت جلد ہوگی۔ اور اس خطبے سے استفادہ کیا جا سکے گا۔ 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہاکہ غالب کے اشعار ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کس طرح کے پر آشوب زمانے میں جی رہا ہے۔ ایک شخص جو اپنی شاعری میں سوالات کرتا ہے اس کا جواب ہم اب تک تلاش کر رہے ہیں اور آئندہ سو برسوں تک تلاش جاری رہے گی۔ غالب صرف واہ واہ کا شاعر نہیں غور وفکر پر مجبور کرنے والا شاعر ہے۔اس توسیعی خطاب میں دلی کی اہم علمی وادبی شخصیات نے شرکت کی،جن میں بالخصوص پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر شاہد حسین، گلزار دہلوی ،پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر انور پاشا، پروفیسر خواجہ اکرام الدین، پروفیسر مظہر مہدی، شاہد ماہلی، ڈاکٹر حسنین اختر،ڈاکٹر ابوبکر عباد،ڈاکٹر محمد کاظم،ڈاکٹر نگار عظیم، ڈاکٹر خالد علوی،ڈاکٹر خالد اشرف،پروفیسر شہزاد انجم،پروفیسراحمد محفوظ،ڈاکٹرسرور الہدی، آصف اعظمی، وسیم راشد،ڈاکٹرممتازعالم رضوی ،نورین علی حق اور سید عینین علی حق وغیرہ قابل ذکرہیں ۔