Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Friday, December 11, 2015

غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار کی افتتاحی تقریب۱۹ دسمبر کوشام چھ بجے منعقدکی گئی جس میں محترمہ محسنہ قدوائی(ایم پی، راجیہ سبھا )کے دستِ مبارک سے غالب انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس موقع پر شعبۂ اردو، لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر انیس اشفاق کو فخرالدین علی احمدغالب انعام برائے تحقیق و تنقید اور فارسی کے نامور اسکالر اورذاکر حسین کالج دہلی یونیورسٹی کے فارسی کے سابق اُستاد ڈاکٹرمحمد مرسلین کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید ، جناب شفیع جاویدکو غالب ایوارڈ برائے اردو نثر ،جناب سلطان اختر کو غالب انعام برائے اردو شاعری، ہم سب غالب انعام برائے اردو ڈرامہ جناب اسلم پرویزاور بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعرپروفیسر ملک زادہ منظوراحمد کومجموعی ادبی خدمات کے لیے ایوارڈ سے سرفرازکیا گیا۔ ہرایوارڈ یافتگان کی خدمت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے ۷۵ہزار روپے اورمومنٹوپیش کیاگیا۔اس موقع پر راجیہ سبھا کی ممبر اور سابق مرکزی وزیر محترمہ محسنہ قدوائی نے فرمایاکہ مجھے آج ادیبوں اور شاعروں کو انعامات دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے۔ میں اس سمینار کے انعقاد پرغالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ قرۃ العین حیدر کے تعلق سے آپ نے فرمایاکہ انہوں نے ملک کی تہذیب کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔ہردورمیں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں جواپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں ایسی شخصیت قرۃ العین حیدرکی تھی جنہوں نے کئی نقش چھوڑے۔

جسٹس آفتاب عالم جو اس پروقار جلسہ کی صدارت فرمارہے تھے آپ نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ قرۃ العین حیدر کوایک قاری کی حیثیت سے میں نے پڑھااور سمجھا ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے قاری سے بے حد قریب تھیں اُن کو پڑھنے سے اس بات کابھی اندازہ ہوتاہے کہ وہ زندگی کا المیہ پیش کررہی ہیں، تہذیبوں کاتصادم، اور اقدارکی پائمالی اُن کا تحریر کاخاص پہلو تھا۔آپ نے اپنی گفتگو میں قرۃ العین حیدر کی کئی کتابوں کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ آپ کی تمام تحریریں ہماری ذہنی تربیت میں کام آتی رہیں۔ممتازادیب و دانشور پروفیسرگوپی چند نارنگ نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ بیسویں صدی فکشن کے حوالے سے قرۃ العین حیدر کی صدی تھی۔ خصوصاً آپ کا ناول آگ کا دریاہماری تاریخ اور ہماری مشترکہ تہذیب کاایک خوبصورت دستاویز ہے۔ آپ کی تخلیقات کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ ہر تخلیق کاکرداراپنی جگہ پر اہمیت کاحامل ہوتاہے۔اس موقع پر آپ نے قرۃ العین حیدر کے ناولوں اور افسانو ں کے کچھ اقتباسات بھی پیش کیے جس میں انہو ں نے زندگی میں معنویت پر روشنی ڈالی۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے مہمانوں کااستقبال کرتے ہوئے کہا کہ قرۃ العین حیدر ہماری بیسویں صدی کی اہم فکشن نگار تھیں، وہ عہد جس عہد میں قرۃ العین حیدر زندگی گزار رہی تھیں وہ اہم ترین عہد تھا۔انہوں نے جتنی بھی تخلیقات پیش کی اُس میں فلسفہ، تاریخ کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اس سمینارمیں جو مقالے پیش کیے جائیں گے اس سے ہم قرۃ العین حیدرکی زندگی اور اُن کے فن کوبخوبی سمجھ سکیں گے۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضاحیدر نے افتتاحی تقریب کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ کارکردگی و ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات اور مہمانان کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اس غالب تقریبات کی خصوصیت یہ ہے کہ ۱۹۶۹ سے مسلسل ہم ان ہی تواریخ میں بین الاقوامی سمینار، مشاعرہ، شام غزل اور دیگر ثقافتی جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں، آج کایہ جلسہ قرۃ العین حیدر کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں کیا جارہاہے جن کی تمام تخلیقات میں ملک کی تہذیب، تاریخ، ثقافت اور گنگا جمنی کلچرکی خوبصورت جھلک ملتی ہے۔اس اہم موقع پرمحترمہ محسنہ قدوائی(ایم پی، راجیہ سبھا )کے دستِ مبارک سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی جن چند مطبوعات کی رسم رونمائی ہوئی اُن میں مرحوم پروفیسر حنیف نقوی کے مقالات کا مجموعہ’’غالب کے فارسی خطوط‘‘،ڈاکٹر شمس بدایونی کی کتاب ’’تفہیم غالب کے مدارج‘‘، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی کتاب ’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ ، غالب نامہ کے دونوں شمارے(جولائی۲۰۱۵،جنوری ۲۰۱۶) کے علاوہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی سال۲۰۱۶ء کی ڈائری،کلینڈر کارسمِ اجراء عمل میں آیا۔ 
آخر میں ادارے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدر نے تمام سامعین کااور مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔سمینار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پر مشہور و معروف غزل سنگر جناب امریش مشرانے غالب کی غزلیں پیش کیں۔ اس موقع پر دہلی وبیرونِ دہلی کے یونیورسٹی کے اساتذہ، طلبا، ریسرچ اسکالرز، مہمان مقالہ نگار،شعرا،ادبا کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد کثیر تعداد میں موجود تھے۔



سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں پانچ مقالے پڑھے گئے ۔پہلا مقالہ جوڈاکٹر کشمیری لال ذاکر کا تھاجس میں مقالہ نگار نے قرۃ العین حیدرسے اپنی ملاقات کی روداد بیان کی ہے۔اس مقالہ کو ڈاکٹر سہیل انور نے پڑھا۔دوسرا مقالہ ڈاکٹر مشتاق صدف نے ’’ مشترکہ تہذیب اور رواداری کی علامت اور عینی آپا‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جس میں آپ نے ہندستان کی موجودہ صورت حال کو قرۃ العین حیدرکی تحریروں اور اقتباسات کے سیاق و سباق میں دیکھنے کی کوشش کی۔اس اجلاس کے تیسرے مقالہ نگار جامیہ ملیہ اسلامیہ شعبہ ہندی کے استاد ڈاکٹررحمان مصورنے پیش کیا۔ آپ نے اپنے مقالے میں اس بات پر زور دیاکہ وہ کون سے محرکات تھے جس کی بنیاد پر قرۃ العین حیدرنے ’’آگ کا دریا‘‘ جیسا شاہکار ناول تحریر کیا۔معروف فکشن نقاد ڈاکٹر خالد اشرف نے اپنا مقالہ قرۃ العین حیدرکے ناول ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ کے تعلق سے پیش کیا۔ اس اجلاس کے آخری مقالہ نگارعہد حاضر کے ممتاز نقاد پروفیسر عتیق اللہ تھے۔ آپ نے اپنے مقالے میں اس بات پر زور دیاکہ قرۃ العین حیدر اپنی تخلیقات میں کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ باتیں پیش کرتی تھیں۔ اور انہوں نے جو کچھ بھی لکھاعام روایات سے ہٹ کر لکھا۔ اس اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر اطہرفاروقی نے بھی اپنے خیالات کااظہار کیا۔اجلاس کے صدر پروفیسر شریف حسین قاسمی نے اپنی صدارتی گفتگو میں قرۃ العین حیدرکے ناولوں میں جو تاریخی حقائق ہیں اُس پر گفتگو کی۔ سمینار کا دوسرا اجلاس جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی کی صدارت میں ہوا اس جلاس میں پاکستان کے اہم دانشور ڈاکٹر مرزاحامدبیگ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے۔ دوسرے اجلاس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو کے صدرپروفیسر وہاج الدین علوی نے اپنے مقالے میں قرۃ العین حیدرکے رپورتاژاور دیگر تخلیقات پرتفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کااظہارکیا۔دوسرے مقالہ نگار پروفیسر صادق نے اپنی گفتگو میں قرۃ العین حیدر سے جو ان کے علمی روابط تھے اس پر گفتگوکی۔آپ نے اپنی گفتگو میں اس بات پرزوردیاکہ قرۃ العین حیدرکے قارئین کی تعداد اردوکے علاوہ دوسرے ادب میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ معروف افسانہ نگار رتن سنگھ نے بھی اپنے مقالہ میں قرۃ العین حیدر کی تخلیقات کے کرداروں پربحث کی۔اس اجلاس میں پروفیسر مرزاحامد بیگ اور سید شاہد مہدی نے بھی قرۃ العین حیدر کے فن اوران کی زندگی کے تعلق سے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔
تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی افضال حسین نے کی اور اس اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جرمنی سے تشریف لائے مہمان ادیب و شاعرعارف نقوی موجود تھے اس اجلاس میں ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری، ڈاکٹرخالد علوی، پروفیسر غضنفر علی اور پروفیسر حسین الحق نے پُرمغز مقالات پیش کیے۔ سمینار کے دوسرے دن کے آخری اجلاس میں موریشس کی اسکالر نازیہ بیگم جافو،ڈاکٹر جمیل اختر،اور پروفیسر ابنِ کنول نے مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی جمال حسین نے کی اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین موجود تھے۔ان چاروں اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں قرۃ العین حیدر کی زندگی کے کچھ ایسے پہلوؤں پربھی ہمارے مقالہ نگار حضرات نے روشنی ڈالی جواب تک پوشیدہ تھے۔ اور ساتھ ہی ان کی تخلیقات کے تعلق سے بھی چند نئے مباحث بھی وجود میں آئے۔ سمینار کے بعد ایک عالمی مشاعرہ کااہتمام کیا گیا جس کی صدارت عہد حاضر کے نامور شاعر ملک زادہ منظور نے کی اور نظامت کا فریضہ معین شاداب نے انجام دیا۔ اس مشاعرہ میں ملک کے ممتاز شعرانے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔

بین الاقوامی غالب سمینار کے تیسرے دن کے پہلے اجلاس میں پانچ مقالے پڑھے گئے ۔پہلا مقالہ اُدے پور سے تشریف لائی مہمان اسکالر ڈاکٹر ثروت خان کاتھا۔جنہوں نے اپنے مقالہ میں حالاتِ حاضرہ کے تعلق سے قرۃ العین حیدرکی تحریروں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر ترنم ریاض نے اپنے مقالہ میں قرۃ العین حیدر کا شاہکارناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے تعلق سے اپنی گفتگو میں اس بات کااظہارکیاکہ قرۃ العین حیدرکی تحریروں کوموجودہ منظرنامہ میں ہمیں دیکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے قرۃ العین حیدرکے افسانے ’’ایک شام‘‘ کے تعلق سے اپنی گفتگو میں ان کی تخلیقات کا فنی جائزہ پیش کرتے ہوئے اُس افسانے کے امتیازات پر تبصرہ کیا۔اجلاس کے آخری مقالہ نگار پروفیسر قاضی جمال حسین نے قرۃ العین حیدرکے ناولٹ ’’سیتاہرن‘‘کاخوبصورت تجزیہ پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ اُن کی اس تخلیق میں بالادستی اورزیردستی کے جنگ کی کشمکش ہے۔
اس اجلاس کے صدارتی فریضہ کو انجام دیتے ہوئے پروفیسر صغیرافراہیم نے تمام مقالات پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے فرمایاکہ یہ تمام مقالات نہایت ہی پُرمغز اور عالمانہ تھے اور ہمیں اُمید ہے کہ جب یہ کتابی شکل میں شائع ہوں گے تو ہم قرۃ العین حیدر کی زندگی اور فن کو بخوبی سمجھ سکیں گے۔ڈاکٹر علی جاوید نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اپنی گفتگو میں تمام مقالہ نگار حضرات کو ان کے عمدہ مقالے پر مبارک باد پیش کیا۔ دوسرے اجلاس کا پہلا مقالہ عہد حاضر کے اہم افسانہ نگار ڈاکٹر خالد جاویدکا تھاجنہوں نے قرۃ العین حیدرکی تخلیق ’’کارجہاں دراز ہے‘‘ کے حوالے سے اُن تمام کرداروں پر روشنی ڈالی جو اُن کی اس تخلیق کے مرکزی کردار تھے۔ آپ نے اس بات کا بھی اشارہ کیاکہ قرۃ العین حیدرکی تحریر کوہمیں علامہ اقبال کی تحریروں کے تناظرمیں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔پروفیسر طارق چھتاری نے قرۃ العین حیدرکے افسانوی اُسلوب پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ قرۃ العین حیدرکے اُسلوب میں ہمیں جوروشنی دکھائی دیتی ہے وہ اُن کے اسلوب کاخاصہ ہے۔اس اجلاس میں پاکستان سے تشریف لائے ممتاز فکشن ناقد پروفیسر مرزاحامدبیگ نے بھی قرۃ العین حیدرکی تحریروں میں جووقت کاتصور ہے اس پر نہایت ہی عالمانہ مقالہ پیش کیا۔پروفیسر عبدالصمد نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیاکہ قرۃ العین حیدر پرلکھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ان کی تحریروں کامطالعہ کریں۔اجلاس کے آخری مقالہ نگار پروفیسر قاضی افضال حسین نے قرۃ العین حیدرکاناول ’’آگ کا دریا‘‘ پرناقدانہ گفتگو کرتے ہوئے اُس ناول کاعلمی تجزیہ پیش کیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر شافع قدوائی مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے اور صدارتی کلمات پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پیش کیا۔ اس بین الاقوامی سمینارکا آخری اجلاس پروفیسر حامدبیگ کی صدارت میں ہوا اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر انورپاشاکو زحمت دی گئی تھی۔ اس اجلاس میں پروفیسر صغیرافراہیم، پروفیسر معین الدین جینابڈے اورمشرف عالم ذوقی نے اپنے مقالے پیش کیے۔آج کے تینوں اجلاس میں ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ،ڈاکٹر محمد کاظم اورڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے ناظم کی حیثیت سے اپنے فرائض کو انجام دیا۔سمینار کے اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم موجود تھے۔ اس اجلاس میں پروفیسر مرزاحامدبیگ، پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر حسین الحق اور ڈاکٹر جمیل اخترنے سمینار کے تعلق سے مجموعی طورپر گفتگو کی۔ خصوصاً پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنی تقریر میں قرۃ العین حیدرکی تمام تخلیقات کا مختصراً جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ قرۃ العین حیدرکا فن، تہذیب، ثقافت اور تاریخ سے عبارت ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اُن کو ’’قرۃ العین ادیب‘‘ کی مصنّفہ سے موسوم کرنا چاہیے۔ اس سمینار کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں ۳۵سے زیادہ مقالہ نگاروں نے قرۃ العین حیدرکے ناول، ناولٹ، افسانے، رپورتاژ اور سفرمے پر عالمانہ گفتگو کی۔ سمینار میں دلّی اور بیرونِ دلّی کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور مختلف علوم وفنون کے افرادبڑی تعداد میں موجود تھے۔ سمینار کے اختتام کے بعد مشہور ڈرامہ ’’غالب کی واپسی دکھایاگیا۔ اس سمینار میں مختلف یونیورسٹیوں سے موجود ریسرچ اسکالرز کو کتابوں کا تحفہ اور سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا۔





Monday, December 7, 2015

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام سالانہ غالب تقریبات

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِاہتمام سالانہ بین الاقوامی غالب تقریبات۱۱دسمبر تا۱۳دسمبر۲۰۱۵ء میں ایوانِ غالب نئی دہلی میں منعقدہوں گی۔ ان تقریبات میں بین الاقوامی غالب سمینار:’’قرۃ العین حیدرایک منفرد فکشن نگار‘‘ کے موضوع پر منعقد کیاجائے گا۔ سمینارکا افتتاح محترمہ محسنہ قدوائی(ایم پی، راجیہ سبھا )کی افتتاحی تقریر سے ہوگا۔محترمہ محسنہ قدوائیکے ہاتھوں غالب انعامات۲۰۱۵ء کی تقسیم عمل میں آئے گی۔تقریب کی صدارت جسٹس جناب آفتاب عالم صاحب فرمائیں گے۔ سمینارکا کلیدی خطبہ معروف اردو اسکالر پروفیسرگوپی چند نارنگ پیش کریں گے۔اس دفعہ غالب ا نعامات۲۰۱۵ء پروفیسرانیس اشفاق، ڈاکٹر محمد مرسلین، جناب شفیع جاوید،جناب سلطان اختر، جناب اسلم پرویز، پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد کو دیے جائیں گے۔یہ انعامات مبلّغ ۷۵ہزار روپے نقد ایک تمغہ اور سند پر مشتمل ہے۔ سمینارکی افتتاحی تقریب میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات کا رسمِ اجراء بھی ہوگا۔سمینار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پرمشہور و معروف غزل سنگر جناب امریش مشراغالب کی غزلیں پیش کریں گے۔

اس دفعہ سمینار میں شرکت کے لیے ہندوستان کے علاوہ بیرون ممالک کے دانشور حضرات بھی شرکت فرمائیں گے۔ جن مقالہ نگار حضرات کی آمد متوقع ہے ان میں جناب عارف نقوی،جناب فرحت شہزاد، پروفیسر ایلین ڈیسولیئرس، ڈاکٹر یوسف عامر،ڈاکٹر محییٰ عبدالرحمن ، جناب انتظار حسین، ڈاکٹر مرزاحامد بیگ، ڈاکٹر نجیبہ عارف، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، پروفیسر عبدالستار دلوی، پروفیسر قاضی افضال احسین، پروفیسر قاضی جمال حسین، پروفیسر طارق چھتاری، پرفیسر صغیر افراہیم، پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر حسین الحق،جناب سید محمد اشرف،ڈاکٹر ثروت خان، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری، جناب رتن سنگھ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر اصغر وجاہت، پروفیسر عبدالبسم اللہ،پروفیسر شمس الحق عثمانی، پروفیسر صادق، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر ابنِ کنول، پروفیسر غضنفرعلی، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، پروفیسر معین الدین جینابڈے، جناب مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر خالد اشرف، ڈاکٹر جمیل اختر، محترمہ ترنم ریاض، ڈاکٹر مشتاق صدف، ڈاکٹر رحمان مصوّر، ڈاکٹر سہیل انور قابلِ ذکر ہیں۔
سمینار کے دوسرے روز یعنی۱۲دسمبر۲۰۱۵ء کوشب میں غالب آڈیٹوریم میں ایک عالمی مشاعرہ کا بھی اہتمام کیاگیاہے جس میں جناب عارف نقوی، جناب فرحت شہزاد،جناب حنیف ترین،جناب سلطان اختر، جناب کشمیری لال ذاکر، محترمہ نصرت مہدی، ڈاکٹر انحم بارہ بنکوی، جناب وجے تیواری، جناب اعجاز پاپولر، پروفیسر فاروق بخشی، جناب خورشید حیدر، جناب مظفر حنفی، جناب گلزار دہلوی،جناب شاہد ماہلی، پروفیسر شہپر رسول، جناب اسرار جامعی، جناب چندربھان خیال، جناب متین امروہوی، جناب فرحت احساس، جناب ماجد دیوبندی، جناب رئیس صدیقی، پروفیسر احمد محفوظ، ڈاکٹر شکیل حسن شمسی،جناب اسد رضا، جناب معین شاداب، جناب ملک زادہ جاوید، جناب شہباز ندیم ضیائی، جناب راشد جمال فاروقی، جناب افضل منگلوری، ڈاکٹر مہتاب حیدر نقوی، ڈاکٹر سراج اجملی، ڈاکٹر راشد انور راشد، جناب حسن کاظمی، جناب خوشبیر سنگھ شاد، جناب فاروق جائیسی اپنا کلام پیش کریں گے۔اس مشاعرہ میں صدر کی حیثیت سے پروفیسر ملک زادہ منظوراحمدموجود رہیں گے۔ اور نظامت کے فرائضجناب معین شاداب انجام دیں گے۔
غالب تقریبات کے اختتام پر۱۳دسمبر کو شام چھ بجے ہم سب ڈرامہ گروپ(غالب انسٹی ٹیوٹ) کی طرف سے اے۔آر۔کاردارکاردار کا تحریر کردہ اُردو ڈرامہ ’’غالب کی واپسی‘‘پیش کیا جائے گا ،جس کی ہدایت کے فرائض عباس حیدر انجام دیں گے۔
امید کی جارہی ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی بڑی تعدادمختلف علوم و فنون سے تعلق رکھنے والے حضرات کی بھی شرکت متوقع ہے۔

Monday, November 9, 2015

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ڈرامہ فیسٹول

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ہم سب ڈرامہ گروپ کے زیراہتمام، ایوانِ غالب میں۱۳نومبر کو اردو ڈرامہ فیسٹول کاافتتاح کرتے ہوئے سابق چیف الیکشن کمشنر، حکومتِ ہند ڈاکٹر ایس۔وائی۔قریشی نے کہاکہ ملک کی تہذیب و ثقافت، ادب اور تاریخ کو پیش کرنے میں ڈراموں کا اہم کردار ہوتاہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ہم سب ڈرامہ گروپ کاذکر کرتے ہوئے آپ نے مزیدکہاکہ میں پچھلے کئی برسوں سے غالب انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے ڈراموں کو دیکھ رہا ہوں، یہاں ہونے والے ڈراموں سے میں ہمیشہ متاثر ہوتارہاپہلے میں ناظرین کی صف میں بیٹھتاتھا اب میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس ڈرامہ فیسٹول کا افتتاح کررہاہوں۔ ہم سب ڈرامہ گروپ کی چیرپرسن ڈاکٹر رخشندہ جلیل نے فرمایاکہ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں اُس ہم سب ڈرامہ گروپ کی چیرپرسن ہوں جس کی بنیاد بیگم عابدہ احمدنے رکھی تھی۔ لہٰذا میری کوشش یہی ہوگی کہ اُن تمام شاندار روایتوں کی پاسداری کروں جنہیں بیگم عابدہ احمد نے ہمیشہ فروغ دیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے تمام مہمانوں کااستقبال کرتے ہوئے امید ظاہر کی اس ڈرامہ فیسول کے ذریعے ہم اپنی اُن دیرینہ روایتوں اور تہذیب و ثقافت کو باقاعدہ سمجھ سکیں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے ہم سب ڈرامہ گروپ کی تاریخی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ۱۹۷۴ سے اس گروپ نے بے شمار ڈرامے پیش کیے ہیں اور اُس زمانے میں ہونے والے ڈراموں کوغالب انسٹی ٹیوٹ کی پہلی چیرپرسن آنجہانی اندراگاندھی اور پہلے سکریٹری مرحوم فخرالدین علی احمد خود دیکھنے آتے تھے۔ آپ نے مزید کہاکہ ہم سب ڈرامہ گروپ کی پہلی چیرپرسن بیگم عابدہ احمد نے اپنی محنتوں سے اس گروپ کو بلندیوں تک پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس ڈرامہ فیسٹول کوبیگم عابدہ احمد کی یادمیں منعقد کیاہے۔اس موقع پر سنگیت ناٹک اکادمی کی سکریٹری محترمہ ہیلن آچاریہ بطور مہمان خصوصی موجود تھیں،افتتاح کے موقع پر ایک سووینئر کی رسم رونمائی غالب انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ڈاکٹر پرویز علی احمد،ڈاکٹر ایس۔وائی۔قریشی،جسٹس بدر دُرریزاحمد،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی ،ڈاکٹر رخشندہ جلیل،ڈاکٹر محمد کاظم اورڈاکٹر رضاحیدرکے دستِ مبارک سے ہوئی۔ افتتاحی اجلاس کے بعد اس فیسٹول کاپہلا ڈرامہ ’’غالب کی واپسی‘‘ پیش کیاگیا۔تین گھنٹے تک چلنے والے اس ڈرامے کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔ ڈرامہ فیسٹول میں ۱۳سے۱۷نومبر تک روزانہ ڈرامے پیش کیے جائیں گے۔ ’’غالب کی واپسی کے بعد’’خونِ ناحق‘‘ (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)، ’’حلق میں تیر‘‘(بہروپ آرٹس گروپ)، ’’رینگتی پرچھائیاں‘‘(کلکتہ گروپ) اور آخری دن معروف ڈرامہ ’’لال قلعہ کا آخری مشاعرہ‘‘ پیش کیا جائے گا۔

سووینئرکی رسمِ رونمائی کی تصویر میں دائیں سے:ڈاکٹر محمد کاظم، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر رخشندہ جلیل، ڈاکٹر ایس۔وائی۔قریشی، ہیلن آچاریہ، ڈاکٹر پرویز علی احمد،جسٹس بدر دُرریز احمد اور ڈاکٹر سید رضاحیدر۔



Sunday, September 13, 2015

بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار 2015

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی ریسرچ اسکالرزکے
سہ روزہ سمینار کے افتتاحی پروگرام میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور کہاکہ ادب ،تہذیب وثقافت کا حلقہ کافی وسیع ہے لہٰذا یہ سمینارمستقبل میں ادبی دنیا کو روشن و تابناک کرے گا۔ تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے قومی کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے بھی تمام مہمانان اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ یہاں پر موجود ہر ریسرچ ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مزید فرمایاکہ یہ سمینارریسرچ اسکالرز کوحوصلہ اور توانائی عطا کرے گا۔افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمدنے کہا کہ مجھے گزشتہ سال بھی ریسرچ اسکالرز سمینارمیں حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی ۔اسکالرز کو چاہیے کہ اپنے سبجیکٹ میں دلچسپی سے حصہ لیں اور اپنے اپنے شعبہ کے لیڈر بھی بنے اور ریڈر بھی بنیں اور ریسرچ کے ذریعے اپنے شعبہ میں نئے نئے تصورات کوپیش کریں۔ انسٹی آف پرشین ریسرچ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ڈائرکٹر پروفیسر آذرمیدُخت صفوی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائی کی اور کہاکہ یہ جلسہ آپ لوگوں سے منسوب ہے۔ آپ اپنے مسائل بالخصوص تحقیقی مسائل کا دلچسپی سے مطالعہ اور اس کا سد باب بھی تلاش کریں۔مجھے بڑی خوشی ہورہی ہے کہ یہ سمیناراردو وفارسی کے باہمی رشتہ کو مضبوط کر رہا ہے۔عہد حاضر کے ممتازادیب و دانشورپروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہاکہ یہ سمینارریسرچ اسکالرز کو ذہنی استحکام عطا کرے گا۔ پروفیسر نارنگ نے ریسرچ کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہمارے دور کے مقابلے آج کے ریسرچ اسکالرز کے درمیان وسائل کی کمی نہیں ہے اس لیے انہیں اپنے ریسرچ کوصحت مندروش کی طرف لے جانا چاہیے۔وہ اپنی جڑوں کو مضبوط کریں تاکہ اس سے ثمرآور درخت کی آبیاری ہوسکے۔مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کے سابق وائس چانسلر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ممتاز سائنس داں پروفیسر سید احتشام حسنین نے ریسرچ کی اہمیت وافادیت کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ہیلتھ اسکیم کے تحت بین الاقوامی ممالک میں دورہ کا موقع ملا جس سے ریسرچ کے مسائل کو قریب سے سمجھنے کا بھی اتفاق ہوا آپ نے قومی کونسل اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس سمینار کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہ یہ سمینار ریسرچ اسکالرز کوایک نئی روشنی اورایک نئی سمت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے بھی افتتاحی اجلاس میں اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی ایک شامیانہ ہے اور سارے علوم اس میں شامل ہیں لہٰدا ریسرچ اسکالرز کو چاہیے کہ دوسرے علوم و فنون سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ آپ نے دکنی ادب کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریسرچ اسکالرز کودکنی ادب کابھی مطالعہ کرنا چاہیے۔اگر ریسرچ اسکالرزدکنی ادب کا مطالعہ کریں گے تواردو ادب کی تاریخ کو انہیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر لیفٹننٹ جنرل،ضمیرالدین شاہ نے اپنی صدارتی گفتگو میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کی صورتحال کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ سے اردو زبان و ادب کا ایک گہوراہ رہی ہے اورہماری پوری کوشش ہے کہ اس یونیورسٹی کے ذریعہ زبان و ادب کواستحکام ملتا رہے۔مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالرز کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی کہاکہ ایک بڑی تعداد ریسرچ میں داخلہ لینا چاہتی ہے اورہماری پوری کوشش یہ ہے کہ ہم تمام ریسرچ اسکالرز کواچھی ٹریننگ دیں تاکہ وہ ایک اچھے استاد ثابت ہوسکیں۔ڈائرکٹرغالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر سید رضاحیدرنے اپنے افتتاحی کلمات میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ ریسرچ اسکالرز سمینار غالب انسٹی ٹیوٹ کی تمام سرگرمیوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ تین دنوں تک منعقد ہونے والے اس سمینا رمیں تیس سے زیادہ یونیورسٹیوں کے شعبۂ فارسی اور شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالرز شرکت کر رہے ہیں جن کی گفتگو سے ہم مستفید ہوں گے اور ہمیں ریسرچ اسکالرز کے مسائل کو سمجھنے کا موقع بھی ملے گا۔افتتاحی اجلاس کے بعد مزید دو اجلاس ہوئے جس میں ممتاز ماہر لسانیات پروفیسر امتیاز حسنین،ڈاکٹر اطہر فاروقی، پروفیسر علیم اشرف اور پروفیسر آذرمیدُخت صفوی نے صدارتی فریضہ کو انجام دیا اورمختلف یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے دس ریسرچ اسکالرزاوردس شرکائے گفتگو نے اپنے مقالات پیش کیے اور خیالات کااظہار کیا۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے دوسرے دن چار اجلاس منعقد کیے گئے جس میں ہندستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو وشعبۂ فارسی کے ریسرچ اسکالرز کے علاوہ ایران کے ریسرچ اسکالرز نے بھی مقالات پیش کیے۔ دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر علی جاوید اور ڈاکٹر خالد علوی نے انجام دیے، نظامت کا فریضہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر رفعت مہدی رضوی نے ادا کیا۔ اس اجلاس میں سات مقالہ پیش کیے گئے۔ جس میں پہلا مقالہ محمد توصیف نے ’’ہنگامۂ عشق از آنندرام مخلص:ایک تعارف‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ان کا مقالہ تعارفی نوعیت کاتھا۔ان کے علاوہ یاسمین رشیدی،الطاف احمد، عبدالسلیم، ذاکر حسین ، اسماء پروین اور ایران کی اسکالر خام مہدی نژاد شیخ نے بھرپورمطالعہ پر مبنی مقالات پیش کیے۔ بالخصوص ایرانی اسکالر نے ’’اردو میں فارسی زبان کے اثرات کی چند جھلکیاں‘‘ کے موضوع پر پیش کیا۔اس اجلاس کی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر علی جاوید نے کہاکہ جتنے بھی مقالے پڑھے گئے اس بنیاد پرہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف یونیورسٹیوں میں جو کام ہورہے ہیں ان کی معنویت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ مقالہ نگار اپنے مقالے میں اپنی رائے سے واقفیت فراہم نہیں کرتے ہیں۔اس اجلاس کے دوسرے صدر ڈاکٹر خالدعلوی نے تمام مقالہ نگاروں کوتلفظات درست کرنے کی طرف توجہ دلائی اور تمام مقالہ نگاروں کے مقالات پر تجزیاتی طورپر اظہارخیال کیااور مقالہ نگاروں کے موضوعات کی تعریف کی۔
چوتھے اجلاس کی صدارت کے فرائض پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی،پروفیسر اختر مہدی اورامریکہ سے آئے مہمان شاعر ’فرحت شہزاد‘ نے انجام دیے۔اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ نورین علی حق نے انجام دیا۔اس اجلاس کی پہلی نگار مقالہ مسرت گیلانی جوکشمیر یونیورسٹی سے تشریف لائی تھیں اپنے عنوان تاریخ،فکشن اور تخلیقی تجربہ(نسیم حجازی کے حوالے سے) تجزیاتی روشنی ڈالی۔دوسرے مقالہ نگارمحمد فرقان کا موضوع روہیل کھنڈ میں اردو افسانے کا ارتقاپرمبنی تھاجس میں انہوں نے مغربی یوپی روہیل کھنڈ کے مردم خیز علاقہ میں اردوکے افسانہ نگاروں و افسانوں پرتجزیاتی مطالعہ پیش کیا۔اسی اجلاس کی تیسری مقالہ نگار شبستاں پروین ’’قدرت اللہ شہاب‘‘ کی افسانہ نگاری پر اظہار خیال کیا۔ ان کے علاوہ شمیم احمد،رزینہ خان نے اپنے مقالے کے ہمہ جہت پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔اس اجلاس کے صدارتی خطبہ میں پروفیسر عبیدالرحمن ہاشمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ طلباء و اسکالرز کومزید محنت و ذمہ داری کے ساتھ مضامین لکھنے چاہیے۔ پروفیسر اخترمہدی نے بھی اپنے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مقالہ نگاروں کو تلفظ درست کرنے کی ضرورت ہے تبھی ہم قومی اور بین الاقوامی سمینار کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں فرحت شہزاد نے بھی اس بین الاقوامی سمینار کے تعلق سے اپنے خیالات کااظہار کیا۔
دوسرے اور تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر عراق رضازیدی، پروفیسر معین الدین جینابڈے، ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری،قاسم خورشید،پروفیسر عین الحسن، پروفیسر مظہر مہدی اور ڈاکٹر ابوبکرعباد نے کی۔ان اجلاس میں نظامت کا فریضہ احمدعلی جوہراور جاوید حسن نے انجام دیا۔ ان دونوں اجلاس میں تقریباً چودہ مقالات پیش کیے گئے۔تمام مقالہ نگاروں نے اپنے موضوعات کے تعلق سے اپنی معروضات پیش کی۔آج کے سمینار کے خاص بات یہ تھی کہ دن بھر تقریباً تیس مقالات پیش کیے گئے اور تقریباً پچیس اسکالرز گفتگو میں شریک ہوئے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ، چوہدری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرز بڑی تعداد میں آج کے سمینار میں شامل ہوئے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے اختتامی اجلاس میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ تین دن کے اس سمینا رمیں بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں۔ یہ سمینار جس میں پروفیسراور مقالہ کے نگراں حضرات تھے اور ہمارے ریسرچ اسکالرز سمینار نے مقالہ بھی پڑھے اور سوالات بھی سامنے آئے نیز اساتدہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں مشورہ بھی دیے۔مگر مشکل یہ ہے کہ سچی بات سامنے نہ آسکی۔ایم۔فل اور پی ایچ ڈی میں جو طلباء داخلہ لیتے ہیں وہ صرف ایم۔اے۔ کرکے آتے ہیں۔ اُن کے مقابلہ میں نگراں یا استاد کاتجربہ زیادہ ہوتاہے لیکن امید یہ رکھی جاتی ہے کہ طالب علم ہی تمام تر کام کرے۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک تازہ وارد طالب علم تحقیق کے اصول وضوابط سے کماحقہ واقف ہوسکے۔آپ نے مزید فرمایاکہ کسی بھی مقالہ کی خرابی اور کمزوری کی بڑی ذمہ داری نگراں کی ہوتی ہے چونکہ موضوع پر اسی کی نگاہ زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے میں طالب علم کوگرتے ہوئے تحقیقی معیار کاذمہ دار نہیں کہہ سکتا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق نے اختتام اجلاس کے صدارتی کلمات میں باہر سے آئے ہوئے تمام ریسرچ اسکالرزکواُن کے مقالات پر انہیں مبارک باد دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ اگر اسی طرح ان ریسرچ اسکالرز کواپنی گفتگو پیش کرنے کاوقتاً فوقتاً موقع دیا جائے تو ہمیں پوری امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ریسرچ اسکالرز اچھے استاد ثابت ہوں گے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرڈاکٹر رضاحیدرنے اپنی گفتگو میں اس بات کااظہارکیاکہ یہ سمینار ان معنوں میں تاریخی اہمیت کاحامل ہے کہ ریسرچ اسکالرز کی اتنی بڑی تعدادایک ساتھ موجود ہے۔آپ نے مزید فرمایاکہ ان تین دنوں کے سمینار میں سو سے زیادہ ریسرچ اسکالرزنے مقالہ نگار، ناظم اور شرکائے گفتگو کی حیثیت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اور ہمیں پوری امید ہے کہ اگر ان اسکالرز کی اسی طرح حوصلہ افزائی کی جائے تو ریسرچ کا معیار بہتر سے بہتر ہوگا۔اس بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے آخری دن ہندستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے ریسرچ اسکالرز نے مقالات پیش کیے۔ آخری دن کے ساتویں اجلاس میں پروفیسر عتیق اللہ اور دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین ماجد دیوبندی نے صدارت کے فریضہ کو انجام دیا۔ پروفیسر عتیق اللہ نے ریسرچ اسکالرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ صرف علم ہی جہالت کی تاریکی کو دور کرتا ہے۔آنے والی نسلوں سے توقع رکھتے ہیں کہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے۔اسکالرز کو ترغیب دیتے ہوئے کہاکہ وہ پیراگرافنگ کی اہمیت کو سمجھیں اور مقالہ میں اس کوبرتیں۔اس اجلاس کے دوسرے صدرجناب ماجد دیوبندی نے اپنے صدارتی کلمات میں تمام مقالہ نگاروں کے مقالے پر اپنی آراء پیش کرتے ہوئے مقالہ نگاروں کی پذیرائی کی۔ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیاآئندہ ہماری اردو اکادمی بھی غالب انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے سمینار منعقد کرائے گی۔ اس اجلاس میں قمر صدیقی،ابواسامہ ہارون رشید،صابر انصاری،صالحہ صدیقی اور نورین علی حق نے مقالات پیش کیے۔ نظامت کافریضہ شاہین نے انجام دیا۔ آٹھویں اجلاس میں فارسی کے ممتاز اسکالر پروفیسر شریف حسین قاسمی اور شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے صدرپروفیسر ابن کنول نے صدارتی فریضہ کو انجام دیا۔بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سہ روزہ سمینار کے تیسرے دن کے صدارتی کلمات میں پروفیسر ابن کنول نے ریسرچ اسکالرز سمینار کے روشن و تابناک مستقبل پر خوشی کااظہارکیامزید کہااس اجلاس میں سات مقالات مختلف موضوعات کے پڑھے گئے اور یہ مقالات معلوماتی تھے۔ اورمزید کہاکہ ریسرچ انہیں لوگوں کو کرنا چاہیے جن میں تحقیق کی ذرا بھی رمق موجود ہو۔ اس اجلاس کے دوسرے صدر اورفارسی کے ممتاز اسکالرپروفیسر شریف حسین قاسمی نے نوجوان اسکالرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صحت مند مقالہ اور تھیسس لکھنا ریسرچ اسکالرز سے زیادہ نگراں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اجلاس میں منیب آفاق، امان اللہ، فیروز بخت افروز،صبامامون رحمانی اور رفعت مہدی رضوی نے مقالات پیش کیے۔ نظامت کا فریضہ سفینہ بیگم نے انجام دیا۔اس بین الاقوامی سمینا رکے نویں اور دسویں اجلاس میں پروفیسر خالد محمود،پروفیسر انوار پاشا،پروفیسر قادر جعفری، پروفیسر شمس الحق عثمانی، ڈاکٹر اخلاق احمد آہن اور ڈاکٹر شعیب رضا خان بحیثیت صدور موجود تھے۔ ان دونوں اجلاس میں سید عارف،شمع خان، عینین علی حق، تسنیم بانو،صالحہ جعفری ، نیہا اقبال، سفینہ بیگم، محمد صادق، محمد مغیث احمد، محمد عالم، نوشاد عالم اور محمد نظام الدین نے مقالات پیش کیے۔ کمیل ترابی اور محمد رضوان خان نے ان دونوں اجلاس میں نظامت کے فریضہ کو انجام دیا۔اس سمینار میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی یونیورسٹی، چوہدری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، الٰہ آباد یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی، مگدھ یونیورسٹی، بھاگلپوری یونیورسٹی، کلتہ یونیورسٹی،مدراس یونیورسٹی،گلبرگہ یونیورسٹی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، عثمانیہ یونیورسٹی، پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ،پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ، کشمیر یونیورسٹی، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، جمّوں یونیورسٹی،اُدے پور یونیورسٹی کے علاوہ کئی بڑی یونیورسٹیوں کے شعبہ اردووشعبۂ فارسی کے رسیرچ اسکالرز نے مقالہ خوانی کی۔ اس بین الاقوامی سمینار کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ملک کی اہم یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو و شعبہ فارسی کے ریسرچ اسکالرز نے شرکاء کی حیثیت سے بھی اپنے سوالات قائم کیے۔ تین دن تک چلنے والے اس سمینار میں تقریباً پورے ملک سے چارسو سے زیادہ ریسرچ اسکالرز نے شرکت فرمائی۔ دہلی کی تمام یونیورسٹیوں کے صدرِ شعبہ اردو اورصدر شعبہ فارسی کو بھی صدارتی کلمات کے لیے مدعو کیا گیاتھا۔



Monday, August 31, 2015

ڈاکٹر نجمہ رحمانی کی کتاب پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام شام شہریاراں کے موقع پر ڈاکٹر نجمہ رحمانی (شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی) 
کی کتاب ’’اردوافسانہ کا سفر‘‘ پرایک پروقار مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔اس مذاکرہ کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی۔ مذاکرہ کے ابتدا میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ کتاب طلباء،اساتذہ اور اہل علم کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے نئے اردو افسانے کے تعلق سے ممتازادیبوں اور دانشوروں کے مضامین کو جمع کرکے موضوع کے ہر پہلو علمی مباحث قائم کیے ہیں۔پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ محفل’ شامِ شہرِ یاراں‘کے موقع پر اس علمی کتاب پر خاطر خواہ بحث ہوئی ۔ادب کی دنیا میں ترمیم و اضافے ہوتے رہتے ہیں اس لئے عدم تکمیل کا احساس تو رہے گا لیکن ان کی اس کوشش پر مجھے ذاتی خوشی ہوئی ۔ڈاکٹرابوبکرعباد نے کہا ہے کہ ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اس کتاب سے افسانے کی تاریخ بھی مرتب کی ہے،افسانے کے فن پربھی بحث کی ہے اور افسانے کے حوالے سے نظریاتی مبحث بھی پیش کی ہے۔ڈاکٹر خالد جاوید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک عرصے سے ایسی کتاب کا انتظار تھا جو افسانے کی تشریح وتفہیم کا حق ادا کر سکے ،ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اس کمی کو پور اکیا۔جناب خورشید اکرم نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ افسانہ پڑھی جانے والی صنف ہے،اب قاری ہی مفقود ہوتے جارہے ہیں پھر بھی ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اس نوعیت کی کتاب ترتیب دے کر قاری کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ افسانے اور غیر افسانے میں تفریق کو سمجھا جائے۔ ڈاکٹر خالد علوی نے اس کتاب کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے منتخب معیاری افسانوں کو بھی انتخاب میں جگہ دی ہے ،انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر جو ہورہا ہے اُسے اخباروں میں پڑھتے ہیں لیکن گھروں کے اندر جو ہوتا ہے اسے کتابوں و افسانوں میں ہم محسوس کرتے ہیں ۔پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے ڈاکٹر نجمہ رحمانی کو ان کی اس کتاب کے لئے مبارک باد دیا۔بالخصوص کتاب کے مقدمہ کے لئے مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ میں انہوں نے ایسے مباحث قائم کئے ہیں کہ جوکتاب کا حق ادا کرتے ہیں۔پروفیسر شمس الحق عثمانی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آخر کیا وجہ کہ غزل اور افسانے ایک ہی دورمیں آنکھیں کھولیں۔لیکن افسانہ پیچھے کیوں رہ گیا؟آپ نے مزید کہا کہ ۳۷ مضامین پر مشتمل اس کتاب میں کم از کم پندرہ ایسے مضامین ہیں جو از سرِ نو تفہیم کی دعوت دیتے ہیں ۔اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اس مذاکرہ میں اپنے خیالا کا اظہار کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کیا۔اس جلسہ میں بڑی تعداد میں طلباء، اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز شامل تھے۔

پروفیسر ارتضیٰ کریم کے ساتھ ایک ملاقات

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے نئے ڈائرکٹرپروفیسر ارتضٰی کریم
کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔اس خاص جلسے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق ارحمن قدوائی نے کی ۔اس جلسہ میں دلّی کی تینون یونیورسیٹیوں کے اردو و فارسی اساتذہ کے علاوہ تمام اردو اداروں کے سر براہوں کو مدعو کیا گیا تھا۔اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلرجناب شاہد مہدی نے کہا کہ قومی کونسل اردو کاایک بڑا علمی سرکاری ادارہ ہے۔اس ادارہ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ادب اور زبان کو فروغ دے۔پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ارتضی کریم دلجمعی کے ساتھ کام کریں گے اور اردو کی رگوں میں تازہ خون دوڑانے کی کوشش کریں گے ۔پروفیسرقاضی عبید الرحمن ہاشمی نے کہا کہ یہ ہمارا اخلاقی فرض بھی بنتا ہے کہ ہم نئے ڈائرکٹر کی ہمت افزائی کریں۔پروفیسر ارتضیٰ کریم کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہمت اور حوصلہ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، شعبہ فارسی کے صدر پروفیسرعراق رضا زیدی نے اپنے اظہارِ خیال میں کہا کہ فارسی زبان اردو زبان کی پاسدار ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ کونسل کو اردو والوں کے ساتھ ساتھ فارسی کے اسکالرز کوبھی ادارے سے وابستہ کریں۔دہلی یونیورسٹی شعبہ فارسی کے صدر پروفیسرچندر شیکھر نے کہا کہ اردو زبان اُسی وقت ترقی کے منازل طے کرے گی جب ہم اُس کوفارسی سے بھی جوڑ کر دیکھیں۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ،معین الدین جینا بڑے نے پروفیسر ارتضی کریم سے اپنی پرانی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ارتضیٰ کریم کا ایک جملہ ہمیشہ یادآتا ہے ،جب انہوں نے مجھ سے پہلی ملاقات میں کہا تھا کہ ’ادارے ارادے سے چلتے ہیں ‘ اور یہ ارادے کے پکّے ہیں۔کشمیر یونیورسٹی سے تشریف لائے پروفیسر قدوس جاوید نے کہا فارسی و عربی زبان کو ساتھ لیکرہی اردو زبان کا فروغ ممکن ہے ۔آپ نے مزید کہاکہ کونسل کواپنے اشاعتی کام کو مزید آگے بڑھانا چاہئے۔دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین ڈاکٹر ماجد دیوبندی نے کہاکہ این سی آر ٹی کے طرز پر قومی کونسل کے کتابوں کی قیمت بھی کم ہونی چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں۔چوتھی دنیا کی ایڈیٹرڈاکٹر وسیم راشد نے اپنی گفتگو میں پروفیسر ارتضیٰ کریم کوان کواس نئے منصب کے لئے مبارک باد پیش کی۔جناب چندر بھان خیال نے ارتضیٰ کریم سے اپنی برسوں کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنے عزم و ارادہ کے پکّے ہیں لہٰذا یہ کونسل کو بھی ترقی کے منازل پہ لے جائیں گے۔مشہور ناول نگارجناب پیغام آفاقی نے کہا کہ یہ دور چیلنجز سے بھرا دور ہے لہٰذا ہمیں اردو کوبلند مقام پے لے جانے کے لئے دوسری زبانوں کے لٹریچراورٹیکنیک سے بھی واقف ہونے کی ضرورت ہے۔اوپن اسکول کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسرڈاکٹر شعیب رضا خاں نے نئے ڈائرکٹر کو مبارک باد دیتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی کہ امید ہے کہ اردو زبا ن کے فروغ کے لئے قومی کونسل ،نیشنل اوپن اسکول کے بچوں کے اردو کی نصابی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ منظرِ عام پر لانے میں اپنا تعاون دے گی۔غالب اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ ماضی میں قومی کونسل کے ذریعہ ہمارے یہاں کمپیوٹر کا کورس جاری تھا ، جس وجہ سے آج بھی طلباء کثیر تعداد میں اردوزبان و ادب و نصاب سے متعلق معلومات لینے آتے ہیں ۔اور ہمیں امید ہے نئے ڈائرکٹر کی سرپرستی میں یہ کام مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ساہتیہ اکادمی کے پروگرا م آفیسرڈاکٹر مشتاق صدف نے کہا کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم ایک فکشن نقاد کی حیثیت سے علمی دنیا میں جانے جاتے ہیں اور یہ خوش آئند بات ہے کہ فکشن حضرات بھی اب انتظامی امور میں پیش پیش ہیں ۔جلسہ کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر ارتضیٰ کریم کو اُن کے اس نئے منصب کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اردو دنیا کو پروفیسر ارتضیٰ کریم سے کافی توقعات وابستہ ہیں اور ہمیں پوری امید ہے کہ یہ ہماری توقعات پر پورے اُتریں گے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے اپنے افتتاحی کلمات میں تمام مہمانوں کااستقبال کرتے ہوئے پروفیسر ارتضیٰ کریم کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم اردو دنیا میں ایک بڑے نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں،ہمیں پوری امید ہے کہ وہ نئے ڈائرکٹر کی حیثیت سے اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی ایک اہم رول ادا کریں گے۔اس جلسہ میں بڑی تعداد میں صحافی، ریسرچ اسکالرز، یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔

’’بلراج مَین را: ایک ناتمام سفر‘‘ پر مذاکرہ منعقد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ’’شامِ شہریاراں‘‘ کے موقع پر نوجوان اسکالر اور شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اُستاد ڈاکٹر سرورالہدیٰ کی تازہ ترین کتاب’’بلراج مَین را: ایک ناتمام سفر‘‘ پرایک مذاکرے کا اہتمام ۲۹؍مئی ۲۰۱۵ ایوانِ غالب میں کیاگیا۔ اس جلسے کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور اورمہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب بلراج مین رانے شرکت کی۔ڈاکٹررضاحیدر نے ابتدا میں کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس خیال کااظہارکیاکہ ’’بلراج مین راایک ناتمام سفر‘‘مین را پر پہلی باضابطہ کتاب ہے۔ اس طرح کی کوئی کتاب کسی عہدِحاضر کے کسی اہم افسانہ نگار پر نہیں لکھی گئی۔ڈاکٹر خالد جاوید نے بلراج مین را کی افسانہ نگاری کاتخلیقی انداز میں ذکرکیا اور اس خیال کااظہارکیاکہ جدیدیت کی کہانی بلراج مین را کی کہانیوں کے بغیر اپنا کوئی اختصاص قائم نہیں کرسکتی۔ سرورالہدی نے مین را کی کہانیوں کوایک سنجیدہ قاری کے طورپر سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے،انہوں نے تجزیہ میں اُن تمام امکانات کو کنگھالنے کی کوشش کی ہے جو عموماً تنقیدی اناکے سبب اوجھل رہے ہیں۔ریسرچ اسکالر عبدالسمیع نے دواقتباسات پڑھ کر سنائے۔فرحت احساس نے مین را اور اُن کے عہد کواُردو کاایک تخلیقی عہد قرار دیتے ہوئے مین را کے امتیازات کی نشاندہی کی،انہوں نے اس خیال کااظہارکیاکہ سرورالہدی نے مین را کے افسانوی متن کا جس انداز سے تجزیہ کیا ہے اس سے مصنف اور عہدکی مکمل نفی نہیں ہوتی،اس انداز نظرکوکسی متن اور خصوصاً مین را کے متن کوپڑھنے کاسب سے اچھازاویہ قرار دیا جاسکتا ہے۔اس مطالعہ سے مین را کا پورا عہد سامنے آجاتاہے اور مین را ایک ذہانت وبغاوت اور بے پناہ تخلیقیت کا استعارہ بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی نے مین را اور اُن کے عہد کو یاد کرتے ہوئے اس دُکھ کااظہارکیاکہ وہ عہد شاید دوبارہ واپس نہ آسکے۔انہوں نے مین راکی کہانیوں کومنفردقرار دیتے ہوئے اُس عہد کی کہانیوں کے ساتھ بھی رکھ کر دیکھنے پر زور دیا۔انہوں نے بلراج مین را ایک ناتمام سفر کومین را اورنئی کہانی کاایک اہم تجزیاتی مطالعہ قرار دیا اور اس بات سرورالہدی کو مبارک باد پیش کی۔ پروفیسر شمیم حنفی نے بلراج مین را ایک ناتمام سفر کی اشاعت، مذاکرے اور مین را کی شرکت کو ایک اہم واقعہ قرار دیا۔انہوں نے اس خیال کا اظہارکیاکہ سرورالہدی کی اس کتاب کی اشاعت سے نہ صرف مین را بلکہ جدیدیت کے افسانوی سفر کاراز بھی کھلتانظر آتاہے۔ سرورالہدی نے مطالعہ کا جو رُخ اختیار کیاہے اُسے ہم متن کے گہرے مطالعے کا نام دے سکتے ہیں۔اس کی ایک مثال کتاب کاایک مضمون ’’کرشن چندر اور بلراج مین را کی سڑک‘‘ ہے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی صدارتی تقریر میں بلراج مین را ایک ناتمام سفر کی اشاعت کو نئے افسانہ کی تنقید میں ایک اہم اضافہ قرار دیا اور اس خیال کااظہارکیاکہ سرورالہدی نے ایک ایسی کتاب لکھ دی ہے جس کو پڑھ کر یہ امید بندھتی ہے کہ تنقیدی سرگرمی میں متن بنیادی حوالے کے طور پر استعمال ہوگا۔سرورالہدی نے متن سے جس طرح کا مکالمہ کیا ہے وہ نقاد سے زیادہ ایک قاری کا مکالمہ ہے۔مجھے خوشی ہے کہ بلراج مین را پر ایک ایسی کتاب آگئی جوحوالے کے طورپر استعمال ہوگی۔ لکھنؤ سے تشریف لائے اُردو کے استاد ڈاکٹر شفیق حسین شفق نے بھی اس موقع پراپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ بلراج مین را کانام جدید اُردو افسانہ میں اتنا اہم ہے کہ اُن کے تذکرے کے بغیر جدید اردو افسانہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس مذاکرے میں مختلف علوم و فنون کے افراد اور یونیورسٹیوں کے طلبا کی تعداد موجود تھی۔

Tuesday, May 26, 2015

فخرالدین علی احمد میموریل لکچرکاانعقاد 2015

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام فخرالدین علی احمد میموریل لکچرکے موقع پر عہدِ حاضر کے ممتاز ادیب و دانشور جناب اشوک واجپئی نے’’اپنی اپنی آگ، کبیر اور غالب‘‘کے موضوع پرخطبہ پیش کرتے ہوئے آپ نے امیرخسرو، تلسی داس، کبیر اورغالب کو ہندستانی تہذیب و ثقافت اور شعری روایت کا ستون قرار دیا۔ آپ نے کبیراور غالب کے کلام کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ غالب اور کبیر کی شاعری کی سب سے خاص بات جس نے قاری کو سب سے زیادہ متاثرکیاوہ یہ کہ اِن دونوں نے اپنی شاعری میں ایسے الفاظ کا استعمال کیاجس کا استعمال اُن سے پہلے کم ہوتا تھا۔ آپ نے یہ بھی فرمایاکہ غالب کی غزلوں میں ہمیں حادثوں کاذکر ملتاہے اور شادمانی کابھی اوریہی باتیں ہمیں کبیرکی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہیں، گھرکاجو تصور غالب کے یہاں ہے وہ کبیر کے یہاں بھی ہمیں دکھائی دیتاہے اس تناظرمیں آپ نے غالب کا مصرعہ بھی پڑھ کر سنایا۔
’عرش سے اِدھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا‘
آخر میں آپ نے یہ بھی فرمایاکہ اِن حالات میں ہم ادیبوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے شاعروں کو ضرور یاد کریں جنہوں نے ملک کو جوڑ نے کی بات کہی ہے۔ اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اپنے تعارفی کلمات میں اشوک باجپئی کاخیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ آج یہ خطبہ اپنے موضوع کے اعتبارسے کافی اہم ہے او رہمیں پوری امید ہے کہ اشوک باجپئی اس موضوع کے تعلق سے ہماری سامنے ایسی باتیں پیش کریں گے جس سے ہمیں اِن دونوں شاعروں کو ایک نئے انداز سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے وائس چیرمین ڈاکٹر پرویز علی احمدنے اپنے صدارتی کلمات میں اِن عظیم شاعروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جلسے کی ابتدامیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے اشوک باجپئی کاتعارف کراتے ہوئے کہاکہ اشوک باجپئی اپنی تحریروں اور تقریروں سے جتنے ہندی والوں میں مقبول ہیں اتنی ہی مقبولیت اُن کی اردو داں طبقوں میں بھی ہے۔ آپ کی ایک خاص بات یہ بھی رہی ہے کہ آپ نے ہندی اور اردو ادب کی مشترکہ روایتوں کو ہمیشہ ایک دوسرے سے جوڑ کراپنی تقریروں اور تحریروں میں پیش کیا ہے۔ اس جلسے میں جسٹس بدر دُرریزاحمد، جسٹس نجمی وزیری، محترمہ رخشندہ جلیل، پروفیسر طاہر محمود، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر خواجہ محمداکرام الدین اور شاہد ماہلی کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔
 تھے۔








تصویر میں(دائیں سے): اشوک باجپئی،سید رضاحیدر،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر پرویز علی احمد،جسٹس بدر دُرریز احمد

Tuesday, March 24, 2015

غالب انسٹی ٹیوٹ میں غلام ربانی تاباں پرکل ہند سمینارمنعقد

کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین،غالب انسٹی ٹیوٹ اور دہلی اردو اکادمی کے زیر اہتمام 20مارچ کو ایوانِ غالب میں یک روزہ کل ہند سمینار بعنوان ’’ غلام ربانی تاباں: شخصیت اور فن‘‘ پر سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیقی الرحمن قدوئی نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر نے انجام دیے۔ اور کلیدی خطبہ قد آور ناقد پروفیسر شمیم حنفی نے پیش کیا۔ کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری ڈاکٹر علی جاوید استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ غلام ربانی تاباں نے 9برس وکالت کرنے کے بعد وکالت چھوڑ دی اور اپنی منفرد راہ اختیار کی تھی۔ غلام ربانی تاباں نے شاعری کو پیشے کے طور پر اختیار نہیں کیا بلکہ ان کے اندر بیٹھے تخلیق کار نے شاعری کرائی۔ وہ کہتے ہیں میں آج تک شاعری کے اسباب نہیں سمجھ سکا ہوں کہ میں نے شاعری شروع ہی کیوں کی۔ آخری دنوں میں تاباں صاحب کو اردو والوں کے رویوں سے کافی تکلیف تھی۔ ڈاکٹر سید رضا حیدر نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ تاباں صاحب ممتاز ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے ، ان کی نظمیں ترقی پسندی کے لہجے میں ہیں۔ مگر وہ اپنی نظموں سے غیر مطمئن بھی نظر آئے شاید یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری کی جانب رخ کیا تو پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ پوری زندگی وہ مارکسزم کی نقش قدم پر چلتے رہے اور وہ اپنے عقیدے سے سختی سے پابند تھے۔ نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور مظلوموں کا ساتھ دیا۔پروفیسر شمیم حنفی نے پر مغز کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ان کی شخصیت میں عجیب و غریب بات یہ تھی کہ جو وہ باہر تھے وہی اندرون بھی تھے۔ تاباں غیر معمولی سماجی سروکار کے شاعر تھے۔ وہ انگریزی میں بھی لکھا کرتے تھے تاکہ ان کی آواز دوسروں تک بھی پہنچ سکے۔ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ اختلاف و انتشار پیدا ہو۔ تاباں کی شاعری اور صحافت تحیرات سے اپنے دامن کو بچاتی ہے۔ تاباںؔ کو یاد کرنا کھوئے ہوئے سندیسے کو یاد کرنا ہے۔ بطور مہمان خصوصی پاکستانی ادیبہ فہمیدہ ریاض نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں مارچ 1981میں جلاوطن ہوکر ہندوستان آئی تو تاباںؔ سے میرے تعلقات کافی اچھے تھے۔ تاباں دنیا کی دولت کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے تاکہ ان کا ضمیر انہیں ملامت نہ کرے۔ ایسی صورت میں وہ کافی مطمئن بھی رہا کرتے تھے۔ ترقی پسند تحریک سے ان کی وابستگی تاحیات رہی ۔ ہندوستان کی یادوں میں میری بہت پیاری یاد غلام ربانی تاباں کی ہے۔ پاکستانی شاعر پروفیسر سحر انصاری نے کہاکہ ترقی پسندی سے جو ہم لوگوں نے روشنی حاصل کی ہے اس میں تاباںؔ کا بھی اہم کردار تھا۔ پاکستان میں مکتبہ دانیال نے ان کا انتخاب شائع کیا ہے۔ صدارتی خطبہ دیتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے تاباں کی شاعری کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور کہاکہ میرا ادبی رابطہ ان سے کافی گہرا تھا ان کے بیٹے اقتدار عالم اور افتخار عالم میرے اچھے دوست بھی تھے۔ جبکہ پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر ابوبکر عباد نے اظہار تشکر ادا کیا۔افتتاحی اجلاس کے بعد مقالوں کے پہلے اجلاس کی صدارت پاکستان سے آئے شاعر انور شعور اور شاہد ماہلی نے کی جب کہ نظامت کے فرائض سفینہ نے انجام دیے۔مجیب رضوی،پروفیسر علی احمد فاطمی ،شعیب رضا فاطمی،ڈاکٹر خالد علوی، پروفیسر انور پاشا نے مقالات پیش کیے۔اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر علی احمد فاطمی اورپروفیسر ابنِ کنول نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر دانش حسین خان نے انجام دیے۔ ارشادی نیازی، احمد امتیاز ، پرویز احمد، ڈاکٹر فرحت رضوی، انوشا رضوی،سفینہ ، سرفراز جاوید منتخب موضوع کے حوالے سے گفتگو کی۔ پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر علی جاوید نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس سمینار میں مختلف علوم و فنون کے افراد اور یونیورسٹیوں کے طلبا کی تعداد موجود تھی۔


مائک پر:محترمہ فہمیدہ ریاض۔ سید رضاحیدر، ڈاکٹر علی جاوید، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروسحر انصاری





Monday, March 2, 2015

مزارِ غالب پر یومِ غالب کا اہتمام

انجمن ترقی اردودلّی شاخ، غالب انسٹی ٹیوٹ اور غالب اکادمی کے زیر اہتمام غالب کی یومِ وفات پر مزار غالب پر یوم غالب کا اہتمام کیا گیا۔ جلسے کا افتتاح کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایاکہ غالب کی حیات و شاعری پر اب تک بے شمار کتابیں آچکی ہیں مگر آج بھی ہم غالب کے کلام میں نئی تعبیریں اورنئے معنی تلاش کر رہے ہیں۔ غالب کے فارسی کلام پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ غالب کا فارسی کلام ہمیشہ ہمیں دعوتِ غور و فکر دیتا رہتا ہے۔ غالب کے فارسی کلام کا ذخیرہ اردو کلام سے کافی زیادہ ہے مگر فارسی کلام میں جتنی تحقیق و تنقید ہونی چاہئے ابھی تک نہیں ہوپائی ہے۔ انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کے صدر ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی صدارتی تقریر میں غالب کی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ غالب کے خطوط کا مطالعہ بھی ہمارے لئے بے حد ضروری ہے۔غالب کے خطوط کے مطالعے کے بغیر نہ ہم غالب کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ عہدِ غالب کو۔ انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہد ماہلی نے مزار غالب پر منعقد ہونے والے یومِ غالب کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ ہم مزار غالب پر پچھلے چالیس برسوں سے غالب کی یوم وفات کے موقع پریومِ غالب کا اہتمام کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہم انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے دائرے کو وسیع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ ادارہ صرف یوم غالب تک محدود نہ رہے بلکہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی یہ ادارہ اہم رول ادا کرسکے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدرنے جلسہ کے آغازمیں غالب کی حیات و خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ غالب ہمارے اُن بڑے شاعروں میں سے ہیں جن کی یومِ ولادت اور یومِ وفات پر ہم یاد کرکے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آپ نے مزید کہا کہ غالب ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں میں اس لئے بھی بھی پسند کئے جاتے ہیں کہ انہو ں نے قومی یکجہتی پر سب سے زیادہ زور دیاہے جس کی سب سے بڑی مثال اُن کی فارسی مثنوی چراغ دیر ہے۔ معروف ادیب ڈاکٹر سلیل مشرانے بھی غالب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے غالب کے کلام کی عالمانہ اندازمیں تشریحات پیش کی۔ غالب اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے تمام سامعین، مقررین اور اہل علم کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر استاد انیس احمد خاں نے اپنی خوبصورت آواز میں غالب کا کلام پیش کیا۔ سمینار کے بعد غالب کی زمین میں ایک طرحی مشاعرہ کا انعقاد کیا جس کی صدارت گلزار دہلوی نے کی اور دلّی اور بیرونِ دلّی کے اہم شعرانے اپنا کلام پیش کیا۔ انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر ادریس احمدا،انجمن کے ممبر اقبال مسعود فاروقی اور محترمہ ہاجرہ منظور نے اس جلسہ کے انعقاد میں اپنا بھرپور تعاون پیش کیا۔