Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Tuesday, September 2, 2014

ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی کتاب ’’مابعدنوآبادیات۔اردو کے تناظر میں‘‘پرایک مذاکرے کااہتمام

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہرِ یاراں کے موقع پرپاکستان کے ممتاز نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی کتاب ’’مابعدنوآبادیات۔اردو کے تناظر میں‘‘پرایک
مذاکرے کااہتمام کیاگیا۔ اس مذاکرے کی صدارت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ ناصر عباس نیّر اردو کے ایک اہم نقّاد ہیں، اُن کی اس اہم کتاب پر مذاکرے سے ہمیں اس لئے بھی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ اس کو پڑھ کر ہمیں مابعد نوآبادیاتی مسائل کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ آپ نے مزید فرمایاکہ یہ کتاب ہماری علمی دنیا میں اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ یہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اردو کی پہلی کتاب ہے۔
اس جلسے کے مہمانِ خصوصی پروفیسر شمیم حنفی نے اپنی گفتگو میں کہا نئے خیال کے بارے میں سوچنا نئی زندگی کا پتہ دینا ہے۔ آتش رفتہ کے سراغ نے ہمیں ذہنی بیماری کی صورت میں مبتلا کردیاہے۔ ۱۹ویں صدی اتنی پیچیدہ صدی ہے کہ اس سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا۔ ناصر عباس نیّر نے اپنی ادبی روایت کو جدید عناصرکی روشنی میں سب سے عمدہ طریقے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بہت غیر معمولی اور پختہ ذہن رکھنے والے اسکالر ہیں۔ ناصر عباس نیّر علمی شرائط اور تقاضوں کو کبھی نظرانداز نہیں کرتے۔اس کتاب کوپڑھے بغیر ہم آج کے آشوب کو نہیں سمجھ سکتے۔
پروفیسر شافع قدوائی نے کہاکہ مابعد نوآبادیات پر گفتگو کاآغازتو ناصرعباس نیّر نے نہیں کیا مگر سب سے سے زیادہ مضامین انہوں نے ہی لکھے ہیں۔ علم کاجوکھیل ہے دراصل وہ طاقت کا کھیل ہے فاتح قوم اپنی مفتوح قوم کے سامنے ثقافتی ایجنڈا پیش کرتی ہے۔ ناصر عباس نے ان تمام پہلوؤں پر گفتگو کی ہے۔ ناصر عباس نیّر نے آزاد اور سرسید کی تحریوں کا بہت سنجیدگی سے مطالعہ کیاہے۔
فرحت احساس نے فرمایاکہ اردو میں تنقیدی رجحانات کو جذب کرنے کے بجائے اگلنے کی کوشش عام رہی ہے ناصر عباس نیّر نے مغربی چیزوں کو اگلنے یا ہوبہو پیش کرنے کے بجائے شفافیت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جب کچھ لکھتے ہیں تو وہ ہرجگہ موجود رہتے ہی۔ وہ صرف مرکز میں ہی نہیں اس کے مضافات کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔
خالدعلوی نے ناصر عباس کی کتاب میں شامل مضامین پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ناصر عباس نیّرنے آزاد کے حوالے سے جو کچھ لکھاہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہو ں نے پہلی مرتبہ اس موضوع پر کچھ لکھنے کی کوشش کی اس لیے ناصر عباس نیّر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ساتھ ہی غالب انسٹی ٹیوٹ بھی قابل مبارک با دہے کہ اس نے اس کتاب پر مذاکرہ کا اہتمام کیا۔
ڈاکٹرسرورالہدی نے کہا کہ مابعد نوآبادیات کے بنیادی نکات پر ناصر عباس نیّر کی جیسی گہری نظرہے وہ اردو میں کہیں اور مشکل سے ملے گی اور اُن کے یہاں اس کی تفہیم میں کسی طرح کی جذباتیت نہیں ہے۔ عام طورپر لوگ مابعد نوبادیات کے سلسلے میں فیشن زدگی کے شکار ہیں اس ماحول میں ناصر عباس نیّر کی یہ کتاب اسکالرشپ اور احساس ذمہ داری کی ایک بڑی مثال ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے جلسہ کی نظامت کرتے ہوئے کتاب کا تعارف پیش کیا اور فرمایا کہ اردو میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں ۱۹ویں صدی کے اردو زبان و ادب کے اُن محرکات کو معروضی طریقے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے جن کا تعلق نوآبادیاتی ذہن سے ہے۔ اس جلسہ میں بڑی تعداد میں اہل علم موجود تھے۔

غالب انسٹی ٹیوٹ میں شامِ شہریاراں میں اقبال مرزا کو خراجِ عقیدت

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہرِ یاراں کے موقع پر لندن کااہم رسالہ ’’صدا‘‘ کے مدیر ڈاکٹر اقبال مرزاکی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک ادبی نشست کااہتمام کیاگیا، اس جلسے کی صدارت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ اقبال مرزارہتے تو لندن میں تھے مگر علمی اعتبار سے وہ ہمارے بے حد قریب تھے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے اُن کا گہرا رشتہ تھاوہ ادارے کے ہر بڑے جلسوں میں لندن سے تشریف لاتے تھے اور اور ہم اُن کے خیالات سے مستفید ہوتے تھے۔
شاہد ماہلی نے اپنی گفتگو میں کہاکہ اقبال مرزا لندن میں رہتے تھے مگر لندن میں رہ کر لکھنوی تہذیب کی وراثت کے امین بنے ہوئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور اُن کی ہر کتاب کوعلمی و ادبی دنیامیں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا گیا۔آج اقبال مرزا ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ہمیں پوری امیدکہ وہ اپنے علمی کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔
اس موقع پر پروفیسر صادق نے اپنی گفتگو میں فرمایاکہ اقبال مرزا اہم شاعر نہیں تھے، اہم ادیب بھی نہیں تھے تاہم ان کی شعرگوئی اور علمیت سے انکار ممکن نہیں۔ لندن سے ماہنامہ ’صدا‘ کی ادارت ان کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ یہ رسالہ تقریباً ۱۹برس تک پابندی کے ساتھ اپنے بل پر شایع کرتے رہے جس کی یورپ اور امریکہ میں بڑی پذیرائی ہوتی رہی۔
پروفیسر علی احمد فاطمی نے اُن کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ ایک اچھے ادیب،شاعراور نہایت ہی اچھے انسان تھے۔ وہ اپنے رسالے میں اپنے اداریوں کے ذریعے اپنے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی کرتے تھے۔ اسلامیات کابھی مطالعہ تھااور کئی اسلامی کتابوں کو انہوں نے ترتیب دیا۔آپ کے انتقال سے یورپ کی اردو دنیاکوبھی کافی نقصان پہنچا ہے۔
پروفیسر محمودالحسن صاحب نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اقبال مرزا کی زندگی سے وابستہ اتنی یادیں ہیں جن کو اگر لکھا جائے تو ایک کتاب تیار ہوجائے گی۔وہ لندن میں رہ کر لکھنؤ کی نمائندگی کرتے تھے۔ اور انہیں اپنی لکھنوی تہذیب پربڑا ناز تھا۔
ڈاکٹر وسیم راشد نے فرمایاکہ ڈاکٹر اقبال مرزانے لندن میں ایک بین الاقوامی سمینار میں مجھے مدعوکیاتھا، میں نے لندن پہنچ کر اس بات کامشاہدہ کیاکہ لندن میں اُن کی علمی حیثیت کتنی بلند تھی۔ وہ ایک بڑے ادیب کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی تھے۔
محترمہ نگار عظیم نے اُن کے رسالے ’صدا‘ کے تعلق سے کہاکہ اُن کے رسالے میں اچھے مضامین شائع ہوتے تھے اور انگلینڈ میں وہ رسالہ کافی مقبول تھا۔ ہندوستان کے ادیبوں کے بھی مضامین اُس میں شائع ہوتے تھے۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدرنے اپنی افتتاحی گفتگو میں فرمایاکہ لندن میں رہ کراپنے رسالے ’’صدا‘‘ کے ذریعے جولوگ پورے یورپ میں اردو زبان و ادب کو فروغ دے رہے ہیں اُن میں ایک اہم نام اقبال مرزا کاتھا، مرحوم کئی کتابوں کے مصنف تھے خصوصاً آپ نے صدا کا عالمی نمبر شائع کیاتھاجوکہ ہماری ادبی دنیامیں دستاویزکی حیثیت رکھتاہے۔اس جلسے میں بڑی تعداد میں اہل علم انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے موجود تھے۔