Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Monday, April 3, 2017

شام شہر یاراں کے تحت تین ریسرچ اسکالرز کی کتابوں پر مذاکرہ

نئی دہلی،مورخہ 28مارچ2017:غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام شام شہر یاراں کے تحت تین ریسرچ اسکالرز کی کتابوں پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔اس جلسے کی صدارت پروفیسر عبدالحق صاحب نے فرمائی جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے شرکت کی۔ اس جلسے میں جے این یو کے ریسرچ اسکالر رضی شہاب کی کتاب’ افسانے کی شعریات‘ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے حال ہی میں پی ایچ ڈی کرنے والے محمد مقیم کی کتاب ’کلیات غزلیات ناسخ ‘ اور دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد نظام الدین کی کتاب ’مولانا آزاد کے صحافتی تراجم اور اردو ترجمہ نگاری ‘ پر مقررین نے بھرپور اظہار خیال کیا ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے فعال ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر نے مہمانوں کا استقبال کرنے کے بعدکتابوں کا تعارف پیش کیا اور تینوں کتابوں کے تعلق سے چند اہم باتیں کہیں۔ معروف دانشور اور ادیب پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ رضی شہاب کی کتاب کافی حد تک ٹیکنیکل ہے تاہم یہی اس کتاب کی خوبی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ادیب افسانے کے فن پر لکھی گئی کتابوں کو پڑھ کر افسانہ نہیں لکھتا لیکن اس کی تنقید لکھتے وقت ان باتوں سے آگاہی ضروری ہے جن کی طرف ’افسانے کی شعریات‘ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ کوئی نوجوان ناسخ کی کلیات مرتب کرے۔ پروفیسر عبدالحق نے طلبا کی کتابوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ متون کی ترتیب و تدوین بہت اہم اور بڑاکام ہے اور کوئی جرأت مند شخص ہی اس کام میں ہاتھ لگا سکتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ متن کے بغیر تنقید واہمہ ہے ۔ اس لیے ایک نوجوان ریسرچ اسکالر کے ذریعے کلیات غزلیات ناسخ کی ترتیب اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے۔ انہوں نے نظام الدین کی کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نوجوان اگرابوالکلام آزاد کے کسی ایسے اہم گوشے کی بازیافت کی جسارت کررہا ہے تو یہ قابل مبارکباد عمل ہے ۔الہ آباد سے اس پروگرام میں خصوصی شرکت کے لیے تشریف لانے والے مہمان پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ رضی شہاب کی کتاب بہت اہم ہے اور میں نے اس کتاب کو اپنی میز پر رکھ چھوڑا ہے ۔ جلد ہی اس کے بارے میں اپنی رائے تحریر بھی کروں گا ۔ حالانکہ یہ کتاب کافی ٹیکنیکل ہے مگر یہ اس نووارد ریسرچ اسکالر کی ذہانت کی بھی غماز ہے۔ ڈاکٹر سفینہ نے افسانے کی شعریات کے حوالے سے اپنی باتیں رکھیں اور کتاب کا بھر پور تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ جگہوں پرتکرار کی کیفیت سے بچا جا سکتا تھا لیکن کتاب بہت اہم ہے اور ہم طالب علموں کے لیے بہت مفید ہے۔پروفیسر احمدمحفوظ نے مصنفین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ باعث خوشی ہے کہ ان میں سے دو کتابوں کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ فاروقی صاحب سے ہے اور وہ اس مذاکرے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ پروفیسر معین الدین جینابڑے نے بہت ہی مختصر مگر جامع خطاب فرمایا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اگر ہمیں کچھ طلبا ایسے ملیں جن کے اندر کچھ صلاحیتیں ہوں تو ہمیں انہیں پروان چڑھانے کے لیے محنت کرنی چاہیےے اور انہیں ایسے مواقع ملنے چاہییں کہ وہ پھلیں پھولیں اور اس سلسلے میں غالب انسٹی ٹیوٹ قابل مبارکبادہے کہ اس نے ان بچوں کے لیے ایسے مذاکرے کا اہتمام کیا۔ پروفیسر ابن کنول نے طلبا کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ جب بھی کچھ لکھیں تو اسے اپنے اساتذہ کو دکھا لیں تاکہ بہت سی معمولی غلطیاں نہ ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ ریسرچ اسکالرز کو اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی سے ہٹ کر بھی کچھ لکھنا چاہیے تاکہ ا ن کی قلمی صلاحیت پروان چڑھے اور اسے اعتبار حاصل ہو سکے۔ اس حوالے سے انہوں نے نظام الدین کو مبارکباد دی کہ ان کا یہ کام صرف اورصرف ان کی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔اس جلسے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر عزیر اسرئیل نے انجام دئے۔ مذاکرے میں جرمنی سے آئے ہوئے مہمان جناب عارف نقوی، جناب اطہر فاروقی، ڈاکٹر سرورالہدی ، معروف افسانہ نگارنگار عظیم، جناب حسنین اختر، رخشندہ روحی ، وسیم راشد،ڈاکٹر سہیل انور، یاسمین فاطمہ اور جاوید رحمانی کے علاوہ جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

Thursday, March 23, 2017

پروفیسرعقیل رضوی کو الٰہ آباد میں استقبالیہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام اس عہد کے ممتاز ادیب و دانشور اور ترقی پسند ناقد پروفیسر سید محمد عقیل رضوی کے اعزاز میں الہ آباد یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا ۔ جس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے الہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رتن لال ہانگلو موجود تھے۔ اس جلسہ میں ڈاکٹر علی احمد فاطمی ،ڈاکٹر علی جاوید ، ڈاکٹر اطہر فاروقی، ڈاکٹر سنتوش بھدوریا،پروفیسر شبنم حمید ، پروفیسر راجندر کمار ، ڈاکٹر رضا حیدر نے اظہار خیال کیا۔ اس جلسہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پروفیسر سید محمد عقیل رضوی موجود تھے۔ اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سید محمد عقیل رضوی کی خدمت میں سپاس نامہ، مومنٹو ، شال اور پچا س ہزار روپے بہ طور نذرانہ پیش کیا گیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے ’’پروفیسر سید محمد عقیل رضوی ادیب و دانشور‘‘ نام کی ایک کتاب بھی ان کے اعزاز میں شائع کی ۔ جس کی رسم رونمائی الہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رتن لا ل ہانگلو کے دست مبارک سے ہوئی اور یہ کتاب تمام سامعین میں تقسیم کی گئی۔وائس چانسلر پروفیسر رتن لال ہانگلو نے اپنی تقریر میں کہا کہ اردو ہمارے تمدن کی روح ہے اور پروفیسر عقیل رضوی کی علمی و ادبی خدمات کے ضمن میں کہا جب تک دنیا رہے گی اردو کے حوالے سے انھیں یاد کیا جائے گا۔پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی تقریر میں کہا کہ الہ آباد اپنے متعدد کارہائے نمایاں کی وجہ سے اپنی امتیازی پہچان رکھتا ہے۔عقیل رضوی کی علمی وادبی خدمات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس کا اعتراف بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔لیکن اس کے باوجود غالب انسٹی ٹیوٹ ان کو یہ اعزاز دیتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہے۔ پروفیسر علی جاوید نے عقیل رضوی کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوکہا کہ پروفیسر عقیل رضوی کی ادبی خدمات پور ی دنیا کے اردو ذخیرہ میں اہمیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر راجندر کمار نے عقیل رضوی کو اردو عربی فارسی اور انگریزی زبانو ں کا ماہر قرار دیا۔پروفیسر شبنم حمید نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر عقیل رضوی کو ملا یہ اعزاز پورے الہ آباد یونیورسٹی کے لیے فخر کی بات ہے۔ ڈاکڑ اطہر فاروقی نے پروفیسر رضوی کی تعلیمی خدمات کے حوالے سے کہا کہ انھوں نے تین نسلوں کی تربیت کی ہے۔پروفیسر علی احمد فاطمی نے اپنے استادپروفیسر عقیل رضوی کی علمی و ادبی خدمات کے ساتھ ان کی سماجی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میرے اندر جو کچھ علمی شعور اور تنقید ی آگہی ہے وہ سب استاد کی مرہون منت ہے۔جلسے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے اس استقبالیہ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس سے قبل بھی متعدد ادیبوں اور دانشوروں کواس استقبالیہ سے سرفراز کیا ہے،آج ہمیں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم آج اس عہد کے نامور ناقد و دانشور پروفیسر سید محمد عقیل رضوی کو اعزازیہ سے سرفراز کر رہے ہیں۔پروفیسر سیدمحمد عقیل رضوی کی علمی و ادبی خدمات کادائرہ اتنا وسیع ہے جس کا احاطہ ناممکن ہے۔آپ کی تحریروں اور تقریروں سے آج بھی ہم سبھی کو روشنی مل رہی ہے۔اس استقبالیہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسر ڈاکٹر ادریس احمد، عبدالواحد،عبدالتوفیق موجود تھے۔ الہ آباد یونیورسٹی کا تاریخی سینیٹ ہال الہ آباد یونیورسٹی کے اساتذہ و ریسرچ اسکالر اور مختلف شہر سے آئے ہوئے مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔





Monday, February 27, 2017

غالب انسٹی ٹیوٹ میں بیگم عابدہ احمد میموریل لکچر

غالب انسٹی ٹیوٹ کی اہم ثقافتی تنظیم ’’ہم سب ڈرامہ گروپ‘‘ کی طرف سے ملک کی سابق خاتونِ اوّل بیگم عابدہ احمد کی یادمیں ۲ مارچ شام ساڑھے پانچ بجے ایوانِ غالب میں ایک لکچرکا اہتمام کیا جارہاہے جس میں نامور ڈرامہ نگار،ہدایت کار اور سماجی کارکن ایم۔کے رینا ’’فنکاراور بدلتا سماج‘‘ کے عنوان سے خطبہ پیش کریں گے۔ اس جلسے کی صدارت دلّی ہائی کورٹ کے جج جسٹس بدر دُرریز احمد فرمائیں گے۔ ڈاکٹر رخشندہ جلیل چیئرپرسن ،ہم سب ڈرامہ گروپ، مہمان مقرر کا تعارف کرائیں گی۔ ہم سب ڈرامہ گروپ غالب انسٹی ٹیوٹ کی اہم ثقافتی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد مرحومہ بیگم عابدہ احمد نے رکھی تھی۔ ہم سب ڈرامہ گروپ کی طرف سے دلّی و بیرونِ دلّی میں ۵۰سے زیادہ ڈرامے اسٹیج کیے جاچکے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے قریب جب دلّی میں ثقافتی سرگرمیاں بہت محدود تھیں ایسے ماحول میں ہم سب ڈرامہ گروپ نے اہم تاریخی ڈرامے پیش کیے جنہیں دیکھنے کے لیے اُس وقت کی تمام عظیم ہستیاں آتی تھیں۔ فن کار سماج کے ہر پہلو کواپنی اداکاری کے ذریعے اسٹیج پر پیش کرتاہے۔ فن کار کا سماج سے اور سماج کا فن کارسے ایسا رشتہ ہے جس کی حقیقت کو ہردورمیں تسلیم کیا گیا ہے۔ایم۔کے۔ رینا ایک ایسے اسکالرہیں جنہوں نے اپنی تحریروں سے اپنے افکاراوراپنے فن سے طویل عرصے سے سماج کے ہر طبقے کواپنے قریب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہٰذا امید کی جارہی ہے کہ وہ اس موضوع پر کچھ ایسے نکات بھی پیش کریں گے جس کی موجودہ وقت میں ضرورت ہے۔