Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Tuesday, March 24, 2015

غالب انسٹی ٹیوٹ میں غلام ربانی تاباں پرکل ہند سمینارمنعقد

کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین،غالب انسٹی ٹیوٹ اور دہلی اردو اکادمی کے زیر اہتمام 20مارچ کو ایوانِ غالب میں یک روزہ کل ہند سمینار بعنوان ’’ غلام ربانی تاباں: شخصیت اور فن‘‘ پر سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیقی الرحمن قدوئی نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر نے انجام دیے۔ اور کلیدی خطبہ قد آور ناقد پروفیسر شمیم حنفی نے پیش کیا۔ کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری ڈاکٹر علی جاوید استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ غلام ربانی تاباں نے 9برس وکالت کرنے کے بعد وکالت چھوڑ دی اور اپنی منفرد راہ اختیار کی تھی۔ غلام ربانی تاباں نے شاعری کو پیشے کے طور پر اختیار نہیں کیا بلکہ ان کے اندر بیٹھے تخلیق کار نے شاعری کرائی۔ وہ کہتے ہیں میں آج تک شاعری کے اسباب نہیں سمجھ سکا ہوں کہ میں نے شاعری شروع ہی کیوں کی۔ آخری دنوں میں تاباں صاحب کو اردو والوں کے رویوں سے کافی تکلیف تھی۔ ڈاکٹر سید رضا حیدر نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ تاباں صاحب ممتاز ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے ، ان کی نظمیں ترقی پسندی کے لہجے میں ہیں۔ مگر وہ اپنی نظموں سے غیر مطمئن بھی نظر آئے شاید یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری کی جانب رخ کیا تو پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ پوری زندگی وہ مارکسزم کی نقش قدم پر چلتے رہے اور وہ اپنے عقیدے سے سختی سے پابند تھے۔ نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور مظلوموں کا ساتھ دیا۔پروفیسر شمیم حنفی نے پر مغز کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ان کی شخصیت میں عجیب و غریب بات یہ تھی کہ جو وہ باہر تھے وہی اندرون بھی تھے۔ تاباں غیر معمولی سماجی سروکار کے شاعر تھے۔ وہ انگریزی میں بھی لکھا کرتے تھے تاکہ ان کی آواز دوسروں تک بھی پہنچ سکے۔ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ اختلاف و انتشار پیدا ہو۔ تاباں کی شاعری اور صحافت تحیرات سے اپنے دامن کو بچاتی ہے۔ تاباںؔ کو یاد کرنا کھوئے ہوئے سندیسے کو یاد کرنا ہے۔ بطور مہمان خصوصی پاکستانی ادیبہ فہمیدہ ریاض نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں مارچ 1981میں جلاوطن ہوکر ہندوستان آئی تو تاباںؔ سے میرے تعلقات کافی اچھے تھے۔ تاباں دنیا کی دولت کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے تاکہ ان کا ضمیر انہیں ملامت نہ کرے۔ ایسی صورت میں وہ کافی مطمئن بھی رہا کرتے تھے۔ ترقی پسند تحریک سے ان کی وابستگی تاحیات رہی ۔ ہندوستان کی یادوں میں میری بہت پیاری یاد غلام ربانی تاباں کی ہے۔ پاکستانی شاعر پروفیسر سحر انصاری نے کہاکہ ترقی پسندی سے جو ہم لوگوں نے روشنی حاصل کی ہے اس میں تاباںؔ کا بھی اہم کردار تھا۔ پاکستان میں مکتبہ دانیال نے ان کا انتخاب شائع کیا ہے۔ صدارتی خطبہ دیتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے تاباں کی شاعری کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور کہاکہ میرا ادبی رابطہ ان سے کافی گہرا تھا ان کے بیٹے اقتدار عالم اور افتخار عالم میرے اچھے دوست بھی تھے۔ جبکہ پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر ابوبکر عباد نے اظہار تشکر ادا کیا۔افتتاحی اجلاس کے بعد مقالوں کے پہلے اجلاس کی صدارت پاکستان سے آئے شاعر انور شعور اور شاہد ماہلی نے کی جب کہ نظامت کے فرائض سفینہ نے انجام دیے۔مجیب رضوی،پروفیسر علی احمد فاطمی ،شعیب رضا فاطمی،ڈاکٹر خالد علوی، پروفیسر انور پاشا نے مقالات پیش کیے۔اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر علی احمد فاطمی اورپروفیسر ابنِ کنول نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر دانش حسین خان نے انجام دیے۔ ارشادی نیازی، احمد امتیاز ، پرویز احمد، ڈاکٹر فرحت رضوی، انوشا رضوی،سفینہ ، سرفراز جاوید منتخب موضوع کے حوالے سے گفتگو کی۔ پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر علی جاوید نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس سمینار میں مختلف علوم و فنون کے افراد اور یونیورسٹیوں کے طلبا کی تعداد موجود تھی۔


مائک پر:محترمہ فہمیدہ ریاض۔ سید رضاحیدر، ڈاکٹر علی جاوید، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروسحر انصاری





Monday, March 2, 2015

مزارِ غالب پر یومِ غالب کا اہتمام

انجمن ترقی اردودلّی شاخ، غالب انسٹی ٹیوٹ اور غالب اکادمی کے زیر اہتمام غالب کی یومِ وفات پر مزار غالب پر یوم غالب کا اہتمام کیا گیا۔ جلسے کا افتتاح کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایاکہ غالب کی حیات و شاعری پر اب تک بے شمار کتابیں آچکی ہیں مگر آج بھی ہم غالب کے کلام میں نئی تعبیریں اورنئے معنی تلاش کر رہے ہیں۔ غالب کے فارسی کلام پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ غالب کا فارسی کلام ہمیشہ ہمیں دعوتِ غور و فکر دیتا رہتا ہے۔ غالب کے فارسی کلام کا ذخیرہ اردو کلام سے کافی زیادہ ہے مگر فارسی کلام میں جتنی تحقیق و تنقید ہونی چاہئے ابھی تک نہیں ہوپائی ہے۔ انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کے صدر ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی صدارتی تقریر میں غالب کی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ غالب کے خطوط کا مطالعہ بھی ہمارے لئے بے حد ضروری ہے۔غالب کے خطوط کے مطالعے کے بغیر نہ ہم غالب کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ عہدِ غالب کو۔ انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہد ماہلی نے مزار غالب پر منعقد ہونے والے یومِ غالب کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ ہم مزار غالب پر پچھلے چالیس برسوں سے غالب کی یوم وفات کے موقع پریومِ غالب کا اہتمام کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہم انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے دائرے کو وسیع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ ادارہ صرف یوم غالب تک محدود نہ رہے بلکہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی یہ ادارہ اہم رول ادا کرسکے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدرنے جلسہ کے آغازمیں غالب کی حیات و خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ غالب ہمارے اُن بڑے شاعروں میں سے ہیں جن کی یومِ ولادت اور یومِ وفات پر ہم یاد کرکے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آپ نے مزید کہا کہ غالب ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں میں اس لئے بھی بھی پسند کئے جاتے ہیں کہ انہو ں نے قومی یکجہتی پر سب سے زیادہ زور دیاہے جس کی سب سے بڑی مثال اُن کی فارسی مثنوی چراغ دیر ہے۔ معروف ادیب ڈاکٹر سلیل مشرانے بھی غالب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے غالب کے کلام کی عالمانہ اندازمیں تشریحات پیش کی۔ غالب اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے تمام سامعین، مقررین اور اہل علم کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر استاد انیس احمد خاں نے اپنی خوبصورت آواز میں غالب کا کلام پیش کیا۔ سمینار کے بعد غالب کی زمین میں ایک طرحی مشاعرہ کا انعقاد کیا جس کی صدارت گلزار دہلوی نے کی اور دلّی اور بیرونِ دلّی کے اہم شعرانے اپنا کلام پیش کیا۔ انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر ادریس احمدا،انجمن کے ممبر اقبال مسعود فاروقی اور محترمہ ہاجرہ منظور نے اس جلسہ کے انعقاد میں اپنا بھرپور تعاون پیش کیا۔