Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Monday, December 30, 2013

غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا انعقاد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار کی افتتاحی تقریب۲۷ دسمبر کوشام چھ بجے منعقدکی گئی جس میں صدر غالب انسٹی ٹیوٹ، پرویز علی احمد کے دستِ مبارک سے غالب انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس موقع پرعہد حاضر کے معروف نقادپروفیسر ابوالکلام قاسمی کوغالب انعام برائے اردو تحقیق و تنقید،فارسی کے ممتاز اسکالرپروفیسر چندرشیکھر کوفخرالدین علی احمدغالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید،مشہور افسانہ نگارجناب سلام بن رزّاق کوغالب انعام برائے اردو نثر،معروف شاعرجناب مصحف اقبال توصیفی کوغالب انعام برائے اردو شاعری اورملک کے اہم ڈرامہ نگارجناب اقبال نیازی کوہم سب غالب انعام برائے اردو ڈرامہ سے نوازا گیا۔



غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ آج علی سردار جعفری کویاد کرنا گویااردو کی روشن خیالی کی روایت سے روبرو ہونا ہے۔ اور یہ روایت ہمارے ملک کی سماجی اور تہذیبی زندگی کی ایک پہچان بھی ہے۔ ان کی تمام تحریروں میں اقدارِ آدم کے احترام کاجذبہ موجود ہے۔ وہ پوری زندگی ایک فکر کے ساتھ سرگرم عمل رہے جسے ہم انسانیت کانام دے سکتے ہیں۔
ممتاز ادیب و دانشورپروفیسر شمیم حنفی نے بین الاقوامی غالب سمینارجو’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ کے موضوع پر منعقد کیااُس کا افتتاح اپنے کلیدی خطبہ سے کیا۔ پروفیسر شمیم حنفی نے فرمایاکہ علی سردار جعفری اُن چند لوگوں میں ہیں جن کی نگاہ اپنی ادبی اور تہذیبی روایت پربہت گہری تھی۔ اُن کے بارے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے روایت کے گہرے مطالعے کے بعداپنے لئے اُن عناصر کاانتخاب کیاجو ترقی پسند فکر کواستحکام عطا کرسکتے تھے۔اُن کی نثرکاایک اپنا جادو ہے وہ لوگ بھی جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں اُنہیں بھی سردار جعفری کی نثر کی قوت کااحساس ہے اور مجموعی طورپر پورا ادبی معاشرہ اُن کی خدمات کامعترف ہے۔اس بات کا لحاظ بھی رکھا جانا چاہئے کہ علی سردار جعفری کی کئی حیثیتیں ہیں اوراِن حیثیتوں کے درمیان اشتراک کا پہلو بھی ہوسکتا ہے 
مگرضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کی ہر ادبی حیثیت پرالگ الگ گفتگو کی جائے تاکہ اُن کے امتیازات کی نشاندہی ہوسکے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضاحیدر نے افتتاحی تقریب کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ کارکردگی و ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات اور مہمانان کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ ادارہ اپنے علمی ،ادبی،تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے نہ صرف ہندستان میں بلکہ پوری دنیامیں جانا جاتا ہے۔آپ نے موضوع کے تعلق سے علی سردار جعفری کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ علی سردار جعفری نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعے سے انصاف اور آزادی پر زور دیا۔وہ سرحدوں کے قائل نہیں تھے۔انہوں نے اپنی شاعری میں اس عالمگیر حسن کو پیش کیا ہے جوتمام اختلافات کے باوجود مشترک بھی ہے۔۔ اس سلسلے میں اُن کی ایک نظم ’مشرق اور مغرب‘ دیکھی جاسکتی ہے۔آج کی دنیاکوشایدپہلے سے کہیں زیادہ علی سردار جعفری کے افکاروخیالات کی ضرورت ہے۔
صدر غالب انسٹی ٹیوٹ، پرویز علی احمد کے دستِ مبارک سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی شائع کردہ نئی مطبوعات ’’حسرت موہانی ۔حیات و خدمات‘‘، ’’دیوان امدادامام اثر‘‘مرتبہ ڈاکٹر سرورالہدیٰ،’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،شاہد ماہلی اورڈاکٹر رضاحیدر اور غالب نامہ کے دو اہم شمارے کی رسمِ اجراء بھی عمل میں آئی۔ 
سمینار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پرمشہور و معروف غزل سنگر جناب امریش مشرا(ممبئی ) نے غالب کی غزلیں پیش کیں۔


غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا دوسرا دن
28 December 2013 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار جو’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ کے موضوع پر منعقد کیاگیاہے کہ اُس کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں مشہور شاعر جناب مصحف اقبال توصیفی اور پاکستان کے معروف ادیب و دانشور جناب ڈاکٹر مرزاحامدبیگ نے صدارت کی۔ پہلا پرچہ ڈاکٹرعطاء اللہ سنجری کا تھا۔انہوں نے علی سردارجعفری کی شاعری کا تقابل کیرل کے شاعروں سے کیا۔ان میں موجود مماثلت اور اختلافات کودلائل کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹرصالحہ ذرّین کا تھاانہوں نے سردارجعفری کی غزلیہ شاعری کے اہم پہلوؤں کی جانب اشارہ کیا۔ جس میں زندگی ،عشق،غم اور اجتماعی معاشرتی کی اصطلاحوں کاخوب خوب استعمال کیا۔ تیسرا مقالہ اردو کے معروف نقاد ابوالکلام قاسمی نے پیش کیاانہوں نے سردارجعفری اور مارکسی جمالیات کوایک نئے زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ سردار جعفری کے یہاں جمالیات کاجو تصور رہاہے اُس سے مارکسی جمالیات کتنی مماثلت رکھتاہے اس جانب انہو ں نے کچھ اشارے کیے۔ چوتھامقالہ قاضی عبیدالرحمن ہاشمی کاتھاانہوں نے سردارجعفری کی تنقید نگاری سے بحث کی۔اس جلسہ کی نظامت ڈاکٹر ممتاز عالم نے کی۔اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب انیس اعظمی موجود تھے۔
دوسر ااجلاس جناب شاہد مہدی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب کی صدارت میں انجام پایا۔ اس جلسہ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پاکستان کے مشہور اسکالر ناصر عبّاس نیّر نے شرکت کی۔اس جلسہ میں پانچ مقالے پڑھے گئے۔ پہلا مقالا جاوید رحمانی نے سردار جعفری کی ترقی پسند ادب کے حوالے سے پیش کیا۔انہوں نے سردار جعفری کے یہاں فکری لچک نہ ہونے کی شکایت کی۔کشورناہید نے پاکستان میں ترقی پسند 
تحریک کی تاریخ اور وہاں کی سیاست اور ادبی سرگرمیوں سے بحث کی۔

سیاسی جبرکی داستان اورادب پر سنسربورڈ کی مارکاخاص طورسے ذکر کیا۔ تقی عابدی نے ترقی پسند تحریک کوازکارِ رفتہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ تحریک توآج بھی قائم ہے لیکن تنظیم ختم ہوچکی ہے۔انہوں نے فیض اور جوش کے حوالے سے ترقی پسند شاعری کامحاکمہ کیا اور اس ضمن میں سردار جعفری کی انفرادیت کواُن کے مرثیہ کے روشنی میں واضح کیا۔ انورمعظم صاحب نے ترقی پسند تحریک ،ترقی پسند شاعری اور ترقی پسندی کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ جس میں انہوں نے ترقی پسند تحریک کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔خلیق انجم نے اپنا مقالہ علی سردار جعفری کے خطوط کی روشنی میں تحریر کیاتھا۔ انہو ں نے سردار جعفری سے اپنے ذاتی مراسم اورانجمن ترقی اردو کی کارگزاریوں کاذکرخاص طورسے راج بہادرگوڈ کولکھے گئے خطوط کاذکرکیا۔ اپنے صدارتی خطبہ میں ناصر عبّاس نیّر نے ترقی پسند تحریک اورمارکسی تنقید کوالگ الگ کرکے دیکھنے کی سفارش کی۔انہوں نے ترقی پسند جمالیات اور مارکسی جمالیات سے بھی بحث کی۔ شاہد مہدی نے سردار جعفری کے تعلق سے لیے جانے والے کسی بھی فیصلے کوجلد بازی قرار دیا۔ اس جلسہ میں مرزاحامد بیگ کی کتاب ’اردو افسانہ کی روایت‘ کاہندستانی ایڈیشن کی رونمائی ہوئی۔اس جلسہ کی نظامت ڈاکٹر مشتاق صدف نے کی۔ لنچ کے وقفہ کے بعد تیسرا اجلاس پروفیسر معین الدین جینابڑے اور پروفیسر عتیق اللہ کی صدارت میں شروع ہوا۔ اس جلسہ میں مہمانِ خصوصی کے طورپر ڈاکٹر تقی عابدی نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر اشفاق عارفی نے انجام دیئے۔پہلا مقالہ ڈاکٹر وسیم بیگم نے سردارجعفری کی تنقید نگاری کے عنوان سے پیش کیا۔اس میں انہوں نے سردار جعفری کی نظریاتی شدت پسندی کوخاص طورسے نشان زد کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر قمرالہدی فریدی نے سردار جعفری کی کتاب لکھنؤ کی پانچ راتیں کی روشنی میں سردار جعفری کی تخلیقی نثراوراسلوب سے بحث کی۔ڈاکٹر علی جاوید نے اپنا مقالہ پیش کرنے کے بجائے اپنے معروضات زبانی طورپرپیش کیے۔اس میں انہو ں نے سردار جعفری سے اپنے اختلافات اوراتفاقات کوپُرزور طریقے سے پیش کیا۔ڈاکٹر علی جاوید کی تقریر میں نظریاتی جبراورسماجی سروکارخاص طورپر زیربحث رہی۔ اس اجلاس کاآخری مقالہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے مجاز کے شعری مجموعہ آہنگ کے مختلف اشاعتوں کے تعلق سے پیش کیا۔ آہنگ کی مختلف اشاعتوں میں متن کی گڑبڑی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ پروفیسر معین الدین جینابڑے نے اپنی صدارتی تقریر میں آہنگ کی مختلف اشاعتوں اور اس کی تدوین کے تعلق سے پڑھے گئے پرچے کوتدوین متن کے سیاق میں اہم قرار دیا۔ انہو ں نے سردار جعفری کی سماجی زندگی اور تخلیقی زندگی کوالگ الگ دیکھنے کی کوشش کی۔ پروفیسر عتیق اللہ نے ترقی پسند تنقید کواردوتنقید کا دماغ قرار دیا۔دوسرے دن کا آخری اجلاس جناب انور معظم اور ڈاکٹر توقیر احمدخاں کی صدارت میں شروع ہوا۔ اس میں جناب آصف اعظمی، ڈاکٹر عمیر منظر،ڈاکٹر احمدمحفوظ، جناب زبیر رضوی اور ڈاکٹر کشمیری لال ذاکرنے مقالے پیش کیے۔ اس جلسہ کی نظامت کے فرائض ڈاکٹراحمدمتیاز نے انجام دیے۔ اجلاس کے آخرمیں شرکاء نے پیش کئے گئے پرچوں پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔ چوتھے اجلاس کے اختتام کے بعدایوانِ غالب کے پُرشکوہ آڈیٹوریم میں پاکستان کی مشہور شاعرہ کشورناہیدکی صدارت میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے معروف شعراء نے شرکت کی۔مشاعرہ کی نظامت کے فرائض معین شاداب نے انجام دیئے۔او رمہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب اسد رضااور جناب شکیل حسن شمسی موجود تھے۔



غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا تیسرا دن
29 December 2013 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار جو’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ کے موضوع پر منعقد کیاگیاہے کہ اُس کے تیسرے دن کے پہلے اجلاس میں پانچ مقالے پڑھے گئے۔ ڈاکٹر مولیٰ بخش،ڈاکٹر صغیرافراہیم،پروفیسرعلی احمدفاطمی،مرزاحامد بیگ نے سردار جعفری اورترقی پسند شعری روایت کے تعلق سے اپنے مقالے پیش کیے۔ پہلے جلسہ کی صدارت پروفیسر عبدالحق اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے کی،نظامت کے فرائض ڈاکٹر ندیم احمد نے انجام دیے۔ اس جلسہ کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عقیل نے سردار جعفری کے تعلق سے اپنے خیالات کااظہارکیا۔ چائے کے وقفے کے بعد دوسرا اجلاس شروع ہوااس جلسہ میں سات مقالے پڑھے گئے۔ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے سردار جعفری کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ کونئے زاویہ سے پڑھنے کی کوشش کی۔جعفری کی نثرانہیں خاص طورپر متاثر کرتی ہے۔انہوں نے کتاب میں موجود بعض بنیادی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیااوراس کتاب کی نثر کوسردار جعفری کاکارنامہ قرار دیا۔ خالد علوی نے سردارجعفری پر ہونے والی اعتراضات کے مثبت اور منفی پہلوؤں کی جانب اشارہ کیے اور ایک حد تک انہیں رفع کرنے کی کوشش کی۔ پروفیسر قاضی جمال حسین نے ترقی پسند ادب کا تصور حسن کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیاانہوں نے حسن کی تفہیم فغانی،حافظ،سودااور مجنوں کے افکار سے کرنے کی کوشش کی۔اور اس سلسلے میں پریم چند کے خطبے کوتصور حسن کی تبدیلی قرار دیا۔ انہو ں نے کہاکہ تصور حسن کی تبدیلی کا مطلب تہذیب کی تبدیلی ہے۔پاکستانی اسکالر ناصر عباس نیّر نے سردار جعفری کی فکری اور تنقیدی رویہ کو نوآبادیاتی تصور میں دیکھنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں انہوں نے سردار جعفری کے تنقیدی جذبے کودوجذبی رجحان کانام دیا۔انہو ں نے یہ بھی کہاکہ سردار جعفری کے یہاں کوئی بنیادی تبدیلی تو نہیں آئی مگر انہوں نے اجتہاد کارویّہ ترک نہیں کیا۔لندن سے آئے اسکالر ضیاء الدین احمد شکیب نے سردار جعفری سے اپنے تعلقات اورملاقاتوں کاخوشگوار انداز میں ذکرکیا،یادداشت اورماضی کی یادوں کے سہارے انہوں نے سردار جعفری کی زندگی ،شاعری اور ترقی پسند فکر کونمایاں کرنے کی کوشش کی۔پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے صدارتی کلمات میں چندنکات پیش کیے اور یہ درخواست کی کہ نئے طالب علموں کواِن نکات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس جلسہ کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور پروفیسر شمیم حنفی نے کی۔ ڈاکٹر وسیم راشد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔محترمہ کشور ناہیدمہمان خصوصی کی حیثیت سے اس جلسہ میں شریک ہوئیں۔آج کا تیسرا اجلاس پروفیسر وہاج الدین علوی اور کشورناہید کی صدارت میں لنچ کے بعد شروع ہوا۔اس جلسہ کی نظامت شگفتہ یاسمین نے کی۔اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مرزاحامدبیگ شریک ہوئے۔ اس جلسہ میں چار مقالے پڑھے گئے۔ ڈاکٹر عمررضانے سردار جعفری کی فکری ارتقاکوان کی مختلف تحریروں اورکتابوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی۔ اورسردارجعفری کوایک ارتقاپذیر شخصیت کا نام دیا۔ ابوظہیر ربانی نے بھی سردار جعفری کی ذہنی اور فکری تناظر کوان کی کتابوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر کاظم نے سردار جعفری کے ڈراموں میں نسوانی کردار کے عنوان سے اپنا پرچہ پیش کیا۔ سردارجعفری کے دس ڈرامے ملتے ہیں جن میں ریڈیائی اورسات اسٹیج ڈرامے ہیں،انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں موجود نسوانی کرداروں سے بحث کی اور سردار جعفری کی کردار نگاری اور زبان و بیان کوخاص طورپرقابل ذکرقرار دیا۔ پروفیسر ابنِ کنول نے مشہور ترقی پسند شاعرمخدوم محی الدین کی شاعری اور شخصیت سے بحث کی اور انہیں ایک قد آوارشاعراور نمائندہ عوامی شاعر قرار دیا۔پروفیسر انیس اشفاق نے سردار جعفری کی مرتبہ دیوان میرکواپنا موضوع بنایااور اس کے دیباچہ پر پُرمغز گفتگو کی۔ سردار کے دیباچہ کومیرشناسی کا اہم وسیلہ قراردیا۔چائے کے وقفے کے بعد اختتامی اجلاس شروع ہوا جس میں بیرونِ ملک سے آئے تمام اسکالروں نے سمینار اور غالب انسٹی ٹیوٹ کی خدمات کااعتراف کیا۔ اور اپنے کچھ مشوروں سے نوازا۔ اس نشست میں پروفیسر خواجہ اکرام،پروفیسر اخترالواسع نے مختصر طورپرسمینار کی کامیابی پرانسٹی ٹیوٹ کومبارک باد پیش کی۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے تمام مہمانوں،ریسرچ اسکالروں اور مقالہ نگاروں کاخاص طورپرشکریہ ادا کیا۔انہوں نے انسٹی ٹیوٹ کے کارکنان کی ہمت وحوصلہ کی داد دی اور انہیں قابل مبارک باد قراردیاکہ کسی بھی سمینار کی کامیابی کا انحصار اس کے انتظامی عملہ پر ہوتا ہے۔ اس جلسہ کی نظامت انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرسیدرضاحیدر نے انجام دی۔اورآخرمیں شاہد ماہلی نے تمام لوگوں کاشکریہ ادا کیا۔اور پروگرام کے اختتام کااعلان کیا۔

اختتامی اجلاس کے بعدایوانِ غالب کے پُرشکوہ آڈیٹوریم میں کرشن چندر کا مشہور ڈرامہ ’ایک قلم سڑک کنارے‘ راجیش سنگھ کی ہدایت میں ہم سب ڈرامہ گروپ اور بہروپ آرٹس گروپ نے اسٹیج کیا۔اس سمینار میں ملک اور بیرون ملک کی معزز ہستیاں موجود تھیں خاص طور پر دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرویونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء اور ریسرچ اسکالر بڑی تعداد میں موجود تھے۔انسٹی ٹیوٹ نے یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس کواپنی مطبوعات اور سرٹیفیکیٹ سے سرفراز کیا۔ 

غالب انسٹی ٹیوٹ میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد

گذشتہ سال کی طرح امسال بھی ۲۹ دسمبر۲۰۱۳ شام سات بجے بین الاقوامی غالب تقریبات کے موقع غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام عالمی مشاعرہ کاانعقاد ایوانِ غالب میں کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت پاکستان کی ممتاز شاعرہ کشورناہید نے انجام دی۔اور مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے ملک کے دواہم اخبارات کے ایڈیٹرجناب اسد رضا اور جناب شکیل حسن شمسی موجود تھے۔ نظامت کا فریضہ جناب معین شاداب نے انجام دیا۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سیدرضاحیدرنے اپنی افتتاحی تقریر میں اس مشاعرے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کایہ مشاعرہ ہندستان کے تمام مشاعروں سے اس لیے منفرد ہے کہ ہم اس مشاعرے میں اُن ہی شعراکو مدعو کرتے ہیں جن کے کلام ملک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں اوراِن شعراء کے کلام کو علمی و ادبی دنیا میں عزت کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پیش ہیں کچھ شعرا کرام کے منتخب کلام:
دل ایک ہے تو کئی بار کیوں لگایا جائے
بس ایک عشق بہت ہے اگر نبھایا جائے
تم سے مل کر سب سے ناطے توڑ لیے تھے
ہم نے بادل دیکھ کے مٹکے پھوڑ لیے تھے
معین شاداب
یہ رات دن جو ابھی بھی بہت وبال کے ہیں
انہیں گذار لو ایام یہ زوال کے ہیں
شمس تبریزی
میں اُس کی بزم ناز میں ہوکر بھی آگیا!
اُلجھا رہا زمانہ عذاب و ثواب میں
افضل منگلوری
جو میرے شانوں روشن ہے میرا اپنا ہے
یہ چہرہ میں نے کسی اور سے خریدا نہیں
شہباز ندیم ضیائی
پوچھئے دِل سے عشق میں ایسے قدم اُٹھائے کیوں
خود ہے بنائے دردِ دل کرتا ہے ہائے ہائے کیوں
متین امروہوی
فنکار ہم ہیں ذہن کی اونچی اڑان ہے
دنیا یہ جانتی ہے ہماری جو شان ہے
بیگم کہو گی ہم کو کہاں تک بُرا بھلا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
ڈاکٹر اعجاز پاپولر
دل میں جب جستجو کے شرارے چلے
میری اُنگلی پکڑ کر ستارے چلے
میرے آگے نہ تھا راستہ کوئی بھی
میرے پیچھے مگر لوگ سارے چلے
چندربھان خیال
اتنے خود ساختہ دیکھے ہیں خدا دنیا میں
’’ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے‘‘
اسد رضا
ایک لمحے کو سہی ہم بھی کبھی سیراب ہوتے
یہ جو صحرا ہیں مرے اطراف کچھ شاداب ہوتے
کچھ ہمارے دم سے آسودہ ہوئی ہوتی یہ دنیا
ہم کتابِ زندگی میں عافیت کا باب ہوتے
راشد جمال فاروقی(رشی کیش)
بد دعا اُس نے مجھے دی تھی، دعا دی میں نے
اس نے دیوار کھڑی کی تھی، گرادی میں نے
شہپر رسول
سحر و اعجاز میں لازم ہے ذرا فرق رہے
یعنی معصوم نگاہی کو نہ وحشت سے ملا
سراج اجملی
سارے موسم فریب دیتے ہیں
رت کوئی معتبر نہیں آتی
کوئی پوچھے ٹھٹھرتے لوگوں سے
نیند کیوں رات بھرنہیں آتی
شکیل
وہ دونوں خوب عشق کہانی میں کرچکے
اک چہرہ اُن کے بیچ رقیبانہ چاہیے
زبیر رضوی

کچھ یونہی زرد زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھِلتا ہوا نہ تھا
کشورناہید

ہمیں تو اپنا فسانہ سُنانا ہوتا ہے
تمہارا ذِکر تو بس اِک بہانہ ہوتا ہے
کشمیری لال ذاکر
اپنا شہکار ابھی اے مرے بت گر نہ بنا
دل دھڑکتا ہے مرا تو مجھے پتھر نہ بنا
مصحف اقبال توصیفی
اب ساکینانِ شیش محل کی نہیں خیر
آئینۂ گرہے ہاتھ میں پتھر لئے ہوئے
قیصراعظمی
کسے بتائیں کہ ہم نے تمام عمر عزیز
گذار دی ہے فقط ایک تیری ہاں کے لئے
مہتاب حیدرنقوی
رہے نادان کے نادان ہشیاری نہیں آئی
اداکاروں میں رہ کر بھی اداکاری نہیں آئی
(راشد انورراشد)


صحرا کے سنگین سفر میں آب رسانی کم نہ پڑے
ساری آنکھیں بھرکر رکھنا دیکھو پانی کم نہ پڑے
فرحت احساس
کسی طرح نہ مری نبھ سکی زمانے سے
تمام عمر رہی بات بات پر اَن بَن
شاہد ماہلی

جناب شاہد ماہلی کے اظہارِ تشکّر کے ساتھ مشاعرہ کااختتام ہوا۔








Thursday, November 28, 2013

میر مہدی مجروح کی تصنیف ’’گنج غرائب‘‘ کی رسمِ رونمائی

غالب انسٹی ٹیوٹ اوررضالائبریری، رام پور کے زیرِ اہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پر میر مہدی مجروح کی تصنیف’’گنج غرائب‘‘ کی رسمِ اجرا کی تقریب میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اردو ادب کے حوالے سے رضا لائبریری رامپورکی خدمات پر خوشی کااظہارکیااور لائبریری کے ڈائرکٹر سید محمد عزیز الدین حسین سے امید ظاہر کی کہ اردو دنیامیں یہ ادارہ اہم کردار ادا کرے گااور یہ کتاب اردو ادب میں گرانقدر اضافہ ہے۔ اس موقع پر ’گنج غرائب‘ کی رونمائی بدست سید شاہد مہدی عمل میں آئی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر رضاحیدر نے کہاکہ میرمہدی مجروح غالب کے شاگرد تھے، مجروح اور غالب کے تعلقات کا عالم یہ تھاکہ آج بھی غالب کی قبر پر جو کتبہ موجود ہے وہ میرمہدی مجروح کاہی لکھاہواہے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے رضا لائبریری کی علمی و فکری کاوشوں کو سراہا۔ پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین نے کہاکہ کتاب میں جو پروف کی خامیاں رہ گئی ہیں اسے درست جلد ازجلد کیا جائے گا۔ کتاب کے مرتب ڈاکٹر ظہیر علی صدیقی نے کہاکہ یہ کتاب اس معنو ں میں اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں مجروح کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ شعبۂ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر عراق رضا زیدی نے کہا کہ گنج غرائب میں تین مخطوطے شامل ہیں، یہ ادب میں بڑا اضافہ ہے، جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ مجروح کا یہ کتاب لکھنے کا بنیادی مقصد اخلاق ہے، انہوں نے اخلاقیات پر گفتگو کی ہے۔ اس کتاب میں دو حصے ہیں۔ ایک داستان ہے ایک حصہ مرتب کا ہے، مرتب کے ذریعہ لکھا گیا تبصرہ بھی قابل توجہ ہے۔ شرکاء میں ڈاکٹر خالد علوی، شہباز ندیم ضیائی، متین امروہوی، پروفیسر آرگوپی ناتھ وغیرہ کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

Tuesday, November 26, 2013

Ghalib Awards 2013

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایوارڈ کا اعلان 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایوارڈکمیٹی کی ایک اہم میٹنگ ۲۶نومبرکو ایوانِ غالب میں پروفیسر صدیق لرحمن قدوائی، سکریٹری غالب انسٹی ٹیوٹ کی صدارت میں ہوئی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کے علاوہ پروفیسر اسلم پرویز، پروفیسر شریف حسین قاسمی، جناب شاہد ماہلی اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرمیٹنگ میں موجود تھے۔ اس اہم موقع پر تمام ممبران نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے پُروقارغالب انعامات ۲۰۱۳ کے۵اہم انعامات پر فیصلہ کیا۔ اردو کے ممتاز ناقد ودانشور پروفیسر ابوالکلام قاسمی کو اُن کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے اردو تحقیق و تنقید سے سرفراز کیا جائے گا۔ فارسی کے نامور اسکالر اوردلّی یونیورسٹی شعبہ فارسی کے صدر پروفیسر چندرشیکھر کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید کے لئے منتخب کیا گیا۔ معروف افسانہ نگار سلام بن رزّاق کا نام غالب ایوارڈ برائے اردو نثر کے لئے طے کیا گیا۔ عہدِ حاضرکے نامور شاعر مصحف اقبال توصیفی کا نام غالب انعام برائے اردو شاعری کے لئے تجویز کیا گیا اور ہم سب غالب انعام برائے اردو ڈرامہ کے لئے مشہور ڈرامہ نگار اقبال نیازی کے نام پر اتفاق ہوا۔ یہ تمام ایوارڈ بین الاقوامی غالب تقریبات کے افتتاحی اجلاس میں ۲۷دسمبرکو مرکزی وزیر کپل سبّل کے دستِ مبارک سے سرٹیفیکٹ،مومنٹو اور ۷۵ہزار روپیہ نقدکے ساتھ عطا کئے جائیں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ پچھلے ۴۰ برسوں سے ۲۰۰ سے زائد انعامات اردو وفارسی، ادب، صحافت، ثقافت ، سائنس، اور مختلف میدان میں کام کرنے والے اہم دانشوروں کو اُن کی گرانقدر خدمات کے لئے نواز چکا ہے۔ غالب ایوارڈ کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ اردو اور فارسی کے اساتذہ، ادبا، شعرا اور نامور ہستیوں کے مشوروں کو مدِّ نظر رکھ کر ایوارڈ کمیٹی انعامات کافیصلہ کرتی ہے۔

Monday, September 30, 2013

new-director-Ghalib-Institute

ڈاکٹر رضاحیدر ،غالب انسٹی ٹیوٹ کے نئے ڈائرکٹر

غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور ادارے کے اہم ممبران نے اتفاق راے سے نوجوان اسکالر ڈاکٹر رضاحیدرکواُن کی محنت، صلاحیت اور لیاقت کو دیکھتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کا نیا ڈائرکٹر منتخب کیاہے۔
دلّی یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر رضاحیدر نے غالب انسٹی ٹیوٹ جوائن کیاتھا،وہ ریسرچ آفیسر کے عہدے پر فائز تھے اور اب انہیں ترقی دے کر ڈائرکٹر کااہم منصب سونپا گیاہے۔
ڈاکٹر رضاحیدر کی مرتبہ کئی کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔مختلف رسائل و جرائد میں بھی آپ کے مضامین برابر شائع ہوتے رہے ہیں۔دہلی کے علاوہ ہندستان کے مختلف گوشوں میں بھی آپ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ تصوف پر اُن کی لکھی ہوئی کتاب کو علمی حلقوں میں کافی پسند کیاگیاہے۔ حال ہی میں اُن کی پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور شاہد ماہلی کے ساتھ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے شائع ہوئی کتاب ’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ تمام علمی حلقوں میں بے حد پسند کی جارہی ہے۔ اس خبرکو سُن کر علمی اور ادبی حلقوں میں کافی خوشی کااظہارکیا جارہاہے اور امید کی جارہی ہے کہ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم رول ادا کریں گے۔ 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائرکٹر جناب شاہد ماہلی کو ادارے کا مشیرِ خاص مقرر کیاگیاہے۔

Dr. Syed Raza Haider Facebook

Tuesday, August 27, 2013

غالب اور عہدِ غالب کا اجرا

جناب حامد انصاری کے ہاتھوں غالب اور عہدِ غالب کا اجرا

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام، نائب صدرِ جمہوریہ ہند، عزت مآب جناب حامد انصاری کے دستِ مبارک سے اُن کی رہائش گاہ ۶مولانا آزاد روڈ، نئی دہلی میں، فیسر صدیق الرحمن قدوائی، جناب شاہد ماہلی اور ڈاکٹر رضاحیدر کی شاہکار تصنیف ’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس جلسے میں اتراکھنڈ کے گورنر، جناب عزیز قریشی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ نائب صدرِ جمہوریہ جناب حامدانصاری نے’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ یہ کتاب،غالب، عہدِ غالب، معاصرینِ غالب اور ہندستان کی تہذیب و ثقافت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں پہلی جنگ آزادی (۱۸۵۷) کے تعلق سے غالب کے جوخطوط ہیں اس کے تناظرمیں بھی گفتگو کی گئی ہے کیونکہ غالب کی زندگی پر ۱۸۵۷ کی جنگ کے اثرات کافی مرتب ہوئے اور وہ دلّی کی تباہی سے بے حد نالاں تھے۔ اس کتاب کے مصنفین کواس شاندار کتاب پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے آپ نے مزید یہ فرمایاکہ اس کتاب سے ہمیں عہدِ غالب کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے بارے میں آپ نے کہاکہ موجودہ دور میں اردو کو ترقی مل رہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنو ں میں حالات اور سازگار ہوں گے۔ اتراکھنڈ کے گورنر جناب عزیز قریشی نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کی ستائش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ ادارہ اردو زبان و ادب اور غالبیات کے حوالے سے جو کام کررہاہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ آپ نے غالب انسٹی ٹیوٹ سے اپنی پرانی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ اس ادارے سے میرا تعلق اُن دنوں سے ہے جب یہ ترقی کے ابتدائی مرحلے میں تھا۔ اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن نے اپنی استقبالیہ تقریر میں تمام مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اب تک غالب ،ان کے عہد ،ان کے معاصرین اور اردو کے اہم مصنفین پر تقریباً تین سو کتابیں شایع کرچکا ہے۔ مگر ہمیں اب تک غالب سے متعلق کسی ایسی کتاب کی کمی محسوس ہوتی تھی جس میں غالب اور ان کے عہدکی زندگی ایسی تصویروں کے ذریعے ایک بار نظروں میں پھر جائے جنہیں کیمرہ آنے سے پہلے کسی نہ کسی طرح بنایاگیا تھا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذخیرے میں ایسی بہت سی تصویریں محفوظ ہیں جن میں سے چند کو منتخب کیاگیاہے۔ غالب نے کلکتہ کا سفر کیاتھا،راستے میں ،لکھنؤ،بنارس،باندہ، الٰہ آباد، عظیم آباد ،اور ان شہروں سے باہر سرایوں میں ٹھہرے۔ ہم نے ان مقامات کی تصویرں کو حاصل کیا۔ جن میں سے کچھ اس کتاب میں شامل ہیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے وائس چیرمین ڈاکٹر پرویز احمد نے فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے بے شماراردو و فارسی اور انگریزی کتابوں کی بھی اشاعت کی ہے جو ہماری ادبی تاریخ میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔موجودہ کتاب ’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ کو آج آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمیں اس لئے بھی خوشی ہورہی ہے کہ یہ کتاب غالب، عہدِ غالب، معاصرینِ غالب، عہدِ غالب کی عمارتوں اور ۱۸۵۷ء کے واقعات کو تصاویر کی روشنی میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ کتاب صرف اردو داں طبقے تک ہی محدود نہ رہے اس لئے ہم نے اِن تمام تصاویر اور واقعات کو انگریزی زبان میں بھی پیش کیا ہے تاکہ یہ ہر خاص و عام میں مقبول ہوسکے۔
جلسے کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب (’’غالب اور عہدِ غالب‘‘) کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں غالب اور عہدِ غالب کے ساتھ ساتھ ۱۸ویں صدی کے ہندستان کو خوبصورت تصاویر کی روشنی میں اردو اور انگریزی دونوں زبانو ں میں پیش کیا گیا ہے۔ جلسے کے آخر میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین کاشکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایاکہ ہماری یہ کوشش رہے گی کہ ہم آنے والے دنو ں میں اس سے بھی بہتر علمی تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتے رہیں۔ اس جلسے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی اور دلّی ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس جناب بدر دُرریز احمد، محسنہ قدوائی، شاہد مہدی، اے رحمان، گلزار دہلوی، ڈاکٹر اطہر فاروقی، آصف اعظمی، فاروق ارگلی، سلیم امروہوی، مسعود فاروقی، ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، یاسمین فاطمہ، عبدالتوفیق، عبدالواحد کے علاوہ بڑی تعداد میں اہلِ علم تشریف فرما تھے۔

تصویر میں بائیں سے: پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، جناب عزیز قریشی، جناب محمد حامد انصاری، ڈاکٹر پرویز احمد، جناب شاہد ماہلی، ڈاکٹر رضاحیدر

--



فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کا اہتمام

غالب انسٹی ٹیوٹ میں فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کا اہتمام 
موضوع: ’’ہندوستان کے ایک سیکولر بنیاد پرست کے تصورات‘‘

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سابق صدر جمہوریہ ہند مرحوم فخرالدین علی احمد کے یومِ ولادت کے موقع پر فخرالدین علی احمد میموریل لکچرکااہتمام کیاگیا۔ جس میں سابق مرکزی وزیر اور راجیہ سبھا کے ممبر جناب منی شنکر ایئر نے ’’ہندوستان کے ایک سیکولر بنیاد پرست کے تصورات‘‘ کے موضوع پر اپنا نہایت ہی عالمانہ خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ پوری دنیا میں ہندوستان کی جہاں بہت ساری باتوں سے پہچان ہے وہیں ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے کیونکہ سیکولرازم پورے برصغیر میں ہندوستان کے علاوہ ہمیں کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی مثال دیتے ہوئے فرمایاکہ وہاں سیکولرازم کو لامذہبیت سے تعبیر کیا جاتاہے مگر ہندوستان میں اُن ہی لوگوں کو زیادہ پسند کیا جاتاہے جو سیکولر ہوتے ہیں۔اس لیے کے اس ملک میں سیکولرازم کی تعبیر و تشریح دنیاکے کئی ممالک سے مختلف ہے۔ منی شنکر ایئرنے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ میرے نزدیک سیکولر ہونے کا مطلب تمام مذاہب اور تمام عقائد کا احترام کرناہے۔ موصوف نے ہندوستان کے تمام مذاہب پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اس ملک کے تمام مذاہب کی خوبی یہی ہے کہ یہ تمام مذاہب سیکولرازم کی تعلیم دیتے ہیں۔ مسلم بادشاہوں کاذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے تھے اور تمام مذاہب کے تہوار میں حصہ لیتے تھے۔ سیکولرازم کو قومیت کی بنیاد بتاتے ہوئے آپ نے مزید فرمایاکہ ہم چاہے کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں مگر ہماری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم کسی مذہب کے ماننے والوں کو اور اُن کے عقائد کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ کیونکہ ہم سب سے پہلے ہندوستانی ہیں۔اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں فرمایاکہ اس تاریخی موقع پرجب پورا ملک اپنے سابق صدر جمہوریہ کو یاد کر رہاہے کیونکہ مرحوم فخرالدین علی احمد نہ صرف اس ملک کے صدر جمہوریہ تھے بلکہ وہ قومی یکجہتی اور اتحاد و مساوات کے بہت بڑے حامی بھی تھے۔ لہٰذا منی شنکر ایئرجیسے سیاست داں، دانشور اور سیکولر کااس موقع پر خطبہ پیش کرنا مرحوم فخرالدین علی احمدکی خدمت میں اس سے بہتر خراجِ عقیدت نہیں ہوسکتاتھا۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ماہرِ تعلیم احمد رشید شیروانی نے فرمایاکہ منی شنکر ایئرکا آج کایہ خطبہ اس لیے ہراعتبار سے کامیاب ہے کیونکہ اُن کی گفتگو میں اُن کی زندہ دلی کابھی اظہار تھا۔ آپ نے یہ بھی کہاکہ جو شخص اچھا انسان نہیں ہوسکتانہ وہ اچھا مسلمان نہ ہندو نہ سکھ اور نہ اچھا عیسائی ہوسکتاہے۔ اس لئے کہ انسانیت ہی تمام مذاہب کی بنیادوں میں ہے۔ ڈاکٹر رضاحیدر نے منی شنکر ایئر کا تعارف پیش کیااور جلسے کی نظامت کی۔ آخر میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین کاشکریہ ادا کیا۔ اس جلسے میں فخرالدین علی احمد صاحب کے دونوں صاحبزادے جسٹس بدر دُرریز احمداور ڈاکٹر پرویزاحمدکے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد جمع تھے۔

Thursday, January 31, 2013

غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا انعقاد 2012

غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا انعقاد

موضوع:’’ہمارا کلاسیکی ادب اور ترقی پسند تنقید‘‘
۲۱،۲۲،۲۳دسمبر

ترقی پسند تحریک سے ہندستان میں کوئی انقلاب تونہیں آیامگر ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں اور مختلف میدانو ں میں کام کرنے والے لوگ متحد ہوئے۔ ترقی پسند تحریک نے اقدار پر زور دیااور علم کو ادب کاہم رکاب بنادیا۔ ان خیالات کااظہار معروف ادیب و صحافی عابد سہیل نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سالانہ جلسہ تقسیم غالب انعامات و بین الاقوامی سمینار کے افتتاح کے موقع پر ایوان غالب میں منعقد ایک پروقار تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا۔ اس موقع پر پاکستان کے ’پنجاب آرٹ کونسل کے چیئرمین عطاالحق قاسمی نے کہاکہ ترقی پسند تحریک سے قبل بھی ترقی پسندی تھی اور بعدمیں بھی ترقی پسندی پائی جاتی ہے۔ کناڈاکے معروف ادیب ڈاکٹر تقی عابدی نے ترقی پسند تحریک کے دورکی شاعری و ادبی خدمات کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ترقی پسند تحریک نے پرانی سوچ بدلی، نئے خیالات و احساسات پیدا کیے اور نئی چیزوں کی تشریح کے علاوہ معیار حسن کو بدلا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سیکریٹری پروفسیر صدیق الرحمن قدوائی نے غالب کے کلام و ان کے موضوعات کی وسعت کاذکر کرتے ہوئے ترقی پسند تحریک کے اغراض و مقاصد اور تاریخ بیان کی۔ انہوں نے اس کی اہمیت و خدمات اور ادب پر اس کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ اس سال ترقی پسند تحریک کے قیام کے ۷۵سال پورے ہونے پر بین الاقوامی غالب سمینار کاموضوع ’’ہمارا کلاسیکی ادب اور ترقی پسند تحریک‘‘ رکھا گیا۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے سمینار میں پڑھے جانے والے تقریباً ۴۰سے زائد مقالو ں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اس موقع پر انہوں نے سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرکمار گجرال اور امیر حسن عابدی کے انتقال پر اظہار تعزیت بھی کیا۔ اس افتتاحی تقریب کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر رضاحیدرنے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ کارکردگی و ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات اور مہمانان کا تعارف پیش کیا۔ بعد ازاں غالب انسٹی ٹیوٹ کی شائع کردہ پروفیسر احتشام حسین کی کتاب’’غالب کا تفکر، پروفیسر وہاب قیصر کی تصنیف ’منظر بہ چشم غالب‘، ڈاکٹر احسن اظفرکی ’بیدل و غالب‘، پروفیسر علی احمد فاطمی کی ’غالب اور الٰہ آباد‘ تحسین فراقی (پاکستان) کی ’غالب اور فکر و آہنگ‘ اور حنیف نقوی کی تصنیف کردہ کتاب ’غالب اور جہان غالب‘ ڈاکٹر تقی عابدی اور عطا الحق قاسمی کے ہاتھوں اجراعمل میں آیا۔ علاوہ ازیں اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے رسالہ ’غالب نامہ‘ کے جولائی ۲۰۱۲ اور جنوری ۲۰۱۳ کے شمارے کا اجرابھی کیاگیا۔ آخر میں جسٹس بدر دریز احمد اور ڈاکٹرپرویز احمد نے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر معروف نقاد پروفیسر عتیق اللہ(دہلی)کواردو تحقیق و تنقید کے لیے فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے ۲۰۱۳ سے سرفراز کیا۔ اس کے علاوہ پروفیسر آذرمی دخت صفوی(علی گڑھ) کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے ۲۰۱۲ برائے فارسی تحقیق و تنقید سے نوازاگیا۔ بعد ازیں اردوشاعری کے لیے کرشن کمار طور (دھرم شالہ) کو، اردو نثر کے لیے پروفیسر محمدذاکر(دہلی) کواور پروفیسر کلیم احمد عاجز(پٹنہ) کو مجموعی ادبی خدمات کے لیے غالب انعام ۲۰۱۲ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ اردو ڈرامہ کے لیے پروفیسر نورالعین علی(ممبئی) کو ہم سب غالب انعام ۲۰۱۲ عطا کیاگیا۔ پروگرام کے آخر میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر شاہد ماہلی نے تمام مہانان اور شرکا کا شکریہ ادا کیااور ایوارڈ یافتگان کو مبارک باد پیش کی۔ بعدمیں شام غزل پروگرام میں معروف غزل سنگر آنجہانی جگجیت سنگھ کے شاگرد امریش مشرا(ممبئی) نے غزلیں پیش کیں۔ 
بین الاقوامی غالب سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آئی سی سی آر کے سابق وائس چیئرمین جناب شاہد مہدی نے فرمایاکہ اکیسوی صدی کے آغاز میں عالمی سطح پر جس قسم کا فاشزم منظر عام پرآیا ہے، وہ عام زندگی کے ساتھ ادبی زندگی کوبھی متاثر کررہاہے، یہی وجہ ہے کہ عصری فاشزم کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے ایک بار پھر ترقی پسند تحریک کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، خواہ اس کی شکل و صورت کچھ بھی ہو۔آپ نے ادیبوں، نقادوں، شاعروں اور فنکاروں سے استعجابیہ اندازمیں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عہد حاضر میں جوحالات پیدا ہوگئے ہیں اور جس قسم کا فاشزم منظرعام آیاہے، کیا ایسا نہیں لگتاکہ یہ وہی حالات اور وہی فاشزم ہے جو بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں تھا؟ ’’ہمارا کلاسیکی ادب اور ترقی پسند تنقید‘‘ کے موضوع پرمنعقد ہونے والے اس سمینار کے دوسرے دن چار اجلاس منعقد کیے گئے جس میں تقریباً ۱۸مقالات پیش کیے گئے۔دو تقریباً سبھی مقالہ نگاروں نے  موضوع سے انصاف کرنے کی کوشش کی اور کلاسکی ادب کے حوالے سے ترقی پسند تنقید کے رویہ کا جائزہ لیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس سمینار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ترقی پسند، جدیدت اور مابعد جدیدیت وغیرہ کے ہر دبستان اور ہر نظریہ فکر کے ادیبوں اور نقادوں کو مدعو کیاگیاتھا جس کی وجہ سے ترقی پسند تنقید کی خوبیوں اور خامیوں دونو ں کا بہت متوازن اندازمیں جائزہ اور مطالعہ پیش کیاگیا۔ پاکستان کی معروف شاعرہ اور ادیبہ کشور ناہید نے اپنی صدارتی تقریر میں اس بات کااشارہ کیاکہ عہدحاضر میں کس طرح جدیدیت کے علمبردار آج ترقی پسند نظریہ کے قریب ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج جوحالات پیدا ہوگئے ہیں انتظا رحسین جیسا افسانہ نگار یہ کہہ رہاہے کہ میں دہشت گردوں کے ساتھ نہیں ہوں۔ معروف پاکستان اسکالر پروفیسر اصغر ندیم سید نے ترقی پسند نقادوں میں پائے جانے کنفیوژن پر روشنی ڈالی، لیکن یہ بھی کہا کل کا رجعت پسند انتظار حسین آج ترقی پسندوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل رہاہے۔ ایک اور معروف پاکستانی اسکالر اور کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے کہاکہ موجودہ حالات میں میروغالب کی معنویت بڑھ گئی ہے۔ کناڈاسے آئے ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ترقی پسند تنقید کا جائزہ فیض احمد فیض کے حوالے سے لیااورکہاکہ ترقی پسندو ں نے سب سے زیادہ اپنی تنقید کو نقصان پہنچایا۔ ہندستانی ادیبوں میں پروفسیر ابن کنول، پروفیسر ابواکلام قاسمی، پروفیسر صغیر افراہیم، ڈاکٹر خالد اشرف،ڈاکٹر خالدعلوی، ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب، ڈاکٹر ارجمند آرا، پروفیسر وہاب قیصر، ڈاکٹر قمر الہدیٰ فریدی، پروفیسر ظہورالدین،ڈاکٹر محی عبدالرحمن(تاشقند)، ڈاکٹر یعقوب یاور، پروفیسرمنیجر پانڈے،پروفیسرزماں آزردہ، پروفیسرقاضی عبیدالرحمن ہاشمی، علاوہ کئی دیگر ناقدین نے اپنے مقالات پیش کیے جبکہ صدارت سید شاہد مہدی، پروفیسر اسلم پرویز، عابد سہیل نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر رضاحیدر، ڈاکٹر اشفاق عارفی، ڈاکٹر ندیم احمد اور ڈاکٹر راشد عزیز نے انجام دیے۔ دوسرے دن شام میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد کیاگیاجس کی صدارت کینڈا سے تشریف لائے مہمان اسکالرڈاکٹر تقی عابدی نے کی۔اس مشاعرہ میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرانے اپنے عمدہ کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔


سمینار کے آخری دن معروف ترقی پسند ادیب و ناقد پروفیسر احتشام حسین کے تنقیدی کارناموں پر قابل قدر مقالات پیش کیے گئے اور ان ناقدین کو جواب دینے کی کوشش کی گئی جنہوں نے احتشام حسین کو شدت پسند ترقی پسندو ں میں شمار کرنے کی کوشش کی تھی۔ پروفیسر احتشام حسین کی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے معروف ناقد و محقق پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ کوئی بھی تنقید تعصّبات سے خالی نہیں ہوتی۔ انہو ں نے کہا کہ احتشام حسین کے عمل میں ردعمل کا رجحان پایا جاتاہے جوان کا اپنا طریقہ کارتھا۔ انہوں نے کہاکہ احتشام حسین مارکسی فکررکھتے تھے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے کہاکہ پروفیسر احتشام حسین کہتے تھے کہ ترقی پسندی کچھ بھی نہیں ہے اگر وہ بندھے ٹکے اصولوں پر کام کرتی ہے۔ اتوارکو سمینار کے پانچویں اجلاس کی صدارت پروفیسر عتیق اللہ نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے انجام دیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر علی احمد فاطمی نے احتشام حسین کا تصور تہذیب کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے احتشام حسین کے تقریباً ایک درجن مضامین کا جائزہ لیاجو زبان و تہذیب پر مشتمل تھے۔ انہوں نے کہاکہ احتشام حسین کا خیال تھا کہ زبان کے بغیر تہذیب کا تصور ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ اردو میں پہلی مرتبہ ہواہے کہ بڑے پیمانے پر تہذیب اور زبان کے حوالے سے ادب کاجائزہ لیاگیا۔ معروف ترقی پسند ادیب و ناقد عابد سہیل نے احتشام حسین کی خدمات کا جائزہ لیا۔ معروف افسانہ نگار رتن سنگھ نے افسانوی اندازمیں پروفیسر احتشام حسین کا شاندار خاکہ پیش کیا۔ انہو ں نے ان کے انسانی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر صالحہ ذرین نے احتشام حسین کے سفرنامہ ساحل اور سمندرکا تجزیاتی مطالعہ پیش کیاجبکہ وہاب قیصر نے احتشام حسین کے تمام سفرناموں کے حوالے سے گفتگو کی۔

چھٹے اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی جبکہ نظامت کہ فرائض وسیم راشد نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر عتیق اللہ، مصر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر نے اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے کہاکہ پروفیسر احتشام حسین میرے استاد تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جو بھی استاد تھے وہ قدامت پرست نہیں تھے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں کیونکہ ایک عمر ایسی ہوتی ہے جب بہت کچھ جذباتی اندازمیں لکھا جاتاہے۔ انہوں نے کہاکہ لکیر پیٹنے کی بجائے اب صحت مند طریقہ سے ادب کا جائزہ لینا چاہیے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہاکہ یہ سچ ہے کہ ایک وقت گزرجانے کے بعد ترقی پسندوں میں بھی خاصی تبدیلی آئی ہے۔ ساتویں اجلاس کی صدارت پروفیسر زماں آزردہ نے کی جبکہ نظام کے فرائض ڈاکٹر شعیب رضاخاں وارثی نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر علی جاوید، پروفیسر انیس اشفاق، معین الدین جنابڈے اور پروفیسر لطف الرحمن،ڈاکٹرکشمیری لال ذاکر اور ضیاء الدین شکیب نے اپنے مقالات پیش کیے۔ اختتامی اجلاس میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر شاہد ماہلی نے آخر میں آئے ہوئے مہمانو ں کا شکریہ اداکیا۔ سمینار کے آخری دن شب میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ہم سب ڈرامہ گروپ کی طرف سے ’’دلّی کاآخری مشاعرہ‘‘ کے عنوان سے ایک تاریخی ڈرامہ بھی پیش کیاگیاجسے مشہور ڈرامہ نگار جناب سعید عالم نے تحریر کیاتھا۔اس ڈرامہ میں ہندی فلم کے معروف اداکار جناب ٹام آلٹرنے خصوصی طورپراپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ان تینوں دنوں میں دلّی کی تینوں یونیورسٹی کے طلبا،ریسرچ اسکالرز، اساتذہ کے علاوہ بڑی تعداد میں دلّی اور بیرونِ کے مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔