Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Thursday, August 4, 2016

غالب توسیعی خطبہ 2016

غالب کی شاعری نوائے سروش سے زیادہ امکانات کے دائرے میں آتی ہے

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام’’غالب توسیعی خطبہ‘‘میں الہ آبادیونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرآرایل ہانگلو کااظہارخیال
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام غالب توسیعی خطبہ بعنوان ’’غالب اور انیسویں صدی‘‘کا انعقاد کیا گیا، جس میں الہٰ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آر ایل ہانگلو نے اپناخطبہ پیش کیا۔ ممتاز مورخ اورجے این یو کے سابق استاذپروفیسر ہربنس مکھیا نے صدارت کی۔ 
پروفیسر آر ایل ہانگلو نے اپنے توسیعی خطبے میں کہاکہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ مکھیا صاحب کے قدموں سے اٹھایا ہے۔ اگر میرا دوسرا جنم ہوا تو میں اردو ادب پڑھنا پسند کروں گا۔ غالب کی حیثیت منفرد و ممتاز ہے، غالب کسی محدود مدت کا شاعر نہیں، وہ ہمیں صدیوں پیچھے بھی لے جاتا ہے اور صدیوں آگے بھی۔ کئی بار لوگوں نے غالب کے کلام کے سیاق و سباق کا خیال رکھے بغیر مفاہیم اخذ کر لیے ہیں۔ غالب نے جب آنکھیں کھولیں تو انگریزوں نے اپنے بال وپر پھیلا لیے تھے،غالب نے اپنے بچپن میں اکبر ثانی کی کسم پرسی دیکھی ،ہندوستان کے دگر گوں حالات دیکھے، حالاں کہ غالب کا بچپن نہایت ہی خوشحالی میں گزرا تھا، اس کے باوجود غالب کا سفر کلکتہ ہماری ادبی تاریخ کا المیہ ہے۔ جب ہم غالب کی تصویر دیکھتے ہیں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ دور رس فکری گتھیوں کو سلجھانے میں لگے ہیں۔اس کے باوجود کہ وہ انیسویں صدی میں موجود تھے یعنی وہ منظر کا حصہ تھے لیکن وہ کبھی منظر نہیں بنتے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ غالب صرف اپنے زمانے کا نوحہ خواں تھا ، مشرقی تاریخ وادب میں غالب وسعت نظری اور فکری پرواز کا ایک کوہ گراں مایہ ہے۔ دہلی کے حالات کو دیکھ کر غالب سمجھ گئے تھے کہ دلی کے دلوں میں اب تیل باقی نہیں ہے اس لیے انہوں نے سفر کیا۔ غالب اپنے زمانے کے سیاسی حالات اور ماحول سے ناواقف نہیں تھے، چوں کہ وہ لال قلعے میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں آتے جاتے ماحول پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر کیا کرتے تھے۔ غالب انگریزوں کی صنعتی ترقی پر حیران تھے غالب عارضی فتوحات سے خوش نہیں ہوتے تھے۔ غالب جانتے تھے کہ انگریزوں کی عمل داری بنگال سے پشاور تک محیط ہے۔ غالب اپنے زمانے کے اس فکر ی رجحان کی نشاط ثانیہ کے علم بردار تھے جس کی طلائی کڑی سر سید احمد خان تھے،جس طرح سر سید تبدیلیوں کے خواہاں تھے اسی طرح غالب بھی معاشرے میں تبدیلیوں کے لیے کوشاں تھے۔ غالب نے پہلی بار گلشن نہ آفریدہ کی بات کی، غالب کی شاعری نوائے سروش سے زیادہ امکانات کے دائرے میں آتی ہے اور ان کا یہ رویہ انہیں غیر روایتی شاعر بنا تا ہے۔ غالب کے افکارشیخ اکبرمحی الدین ابن عربی سے لیکر متاخرین کشمیری صوفی شعرا کی توسیع ہیں۔ 
اس توسیعی خطاب سے پہلیالہٰ آباد یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر علی احمد فاطمی نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ آج اس پروگرام میں دو بڑے مورخین شرکت کر رہے ہیں۔ پروفیسر ہانگلو کے خطبے کا اندازہ ان کی گفتگو کے بعد لگایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ہانگلو کا آبائی وطن کشمیر ہے وہ وہاں درس و تدریس کے پیشے سے بھی وابستہ رہے ۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں سے بھی وابستگی رہی ہے۔ سیکڑوں مضامین اور تقریباً 8کتابیں بھی شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی خدمات کے عوض مختلف اعزازات سے بھی انہیں نوازا جا چکا ہے۔ آپ اردو ، ہندی ، کشمیری کے علاوہ فارسی سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ انہی کامیابیوں کے پیش نظرحکومت ہندنےآپ کوالہٰ آباد یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب کیا ہے۔ 
پروفیسر ہربنس مکھیا نے صدارتی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں غالب کا مداح ہوں مگر میرا بہت زیادہ مطالعہ نہیں ہے، ہانگلو صاحب کاغالبیات پر عالمانہ اور خوبصورت مطالعہ ہے۔اردو کی اعلیٰ شاعری اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہی ہوئی ہے ۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے حوالے سے کسی شاعر کا مطالعہ دلکش ہو جاتا ہے۔ محبت کوجس طرح سے غالب نے سمجھاہے غالباً کسی اور شاعر نے نہیں سمجھا ہے۔ غالب کی غیر مشروط محبت مجھے بہت عزیز ہے۔ غالب کے یہاں زندگی کا درجہ اعلیٰ و ارفع ہے۔ زندگی کی وسعتیں ،اس کی محبت اور ان کے اعلی افکاران کی شاعری کومحدود نہیں ہونے دیتے ۔ 
قبل ازیں خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر نے کہاکہ اس صدی کو سمجھنے کے لیے غالب کو سمجھنا اشد ضروری ہے ، یہ غالب کی ہی نہیں بلکہ زبان و ادب کی صدی ہے۔ اس صدی کی اپنی تاریخی نوعیت ہے ۔آج کا یہ خطبہ اہمیت و افادیت کا حامل ہے ، خطبے کی اشاعت بہت جلد ہوگی۔ اور اس خطبے سے استفادہ کیا جا سکے گا۔ 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہاکہ غالب کے اشعار ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کس طرح کے پر آشوب زمانے میں جی رہا ہے۔ ایک شخص جو اپنی شاعری میں سوالات کرتا ہے اس کا جواب ہم اب تک تلاش کر رہے ہیں اور آئندہ سو برسوں تک تلاش جاری رہے گی۔ غالب صرف واہ واہ کا شاعر نہیں غور وفکر پر مجبور کرنے والا شاعر ہے۔اس توسیعی خطاب میں دلی کی اہم علمی وادبی شخصیات نے شرکت کی،جن میں بالخصوص پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر شاہد حسین، گلزار دہلوی ،پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر انور پاشا، پروفیسر خواجہ اکرام الدین، پروفیسر مظہر مہدی، شاہد ماہلی، ڈاکٹر حسنین اختر،ڈاکٹر ابوبکر عباد،ڈاکٹر محمد کاظم،ڈاکٹر نگار عظیم، ڈاکٹر خالد علوی،ڈاکٹر خالد اشرف،پروفیسر شہزاد انجم،پروفیسراحمد محفوظ،ڈاکٹرسرور الہدی، آصف اعظمی، وسیم راشد،ڈاکٹرممتازعالم رضوی ،نورین علی حق اور سید عینین علی حق وغیرہ قابل ذکرہیں ۔