Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Monday, March 3, 2014

غالب انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتاب پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پرممتاز ادیب و دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اہم کتاب ’’غالب ۔معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتااور شعریات‘‘ پر ایک اہم مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو اُن کی اس تاریخی کتاب پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں غالبیات کے تعلق سے ہرصفحے میں نئی بات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل بھی غالبیات پر بے شمار تنقیدیں لکھی گئیں لیکن پروفیسر نارنگ کے اس علمی کام کو تحقیق و تنقید کی دنیامیں ہمیشہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھاجائے گا۔ اس جلسے کے مہمانِ خصوصی کینیڈاکے معروف ادیب و دانشور ڈاکٹر تقی عابدی نے فرمایاکہ یہ کتاب بے پناہ خصوصیات کی حامل ہے اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہرصفحہ غالب سے مربوط ہے۔ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالب کے سومناتی خیال پر بھی گفتگو کی ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں ۲۱ ابواب قائم کئے ہیں اور اس کا ہر باب فکر انگیز اور معنی خیز ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے یہ بھی فرمایاکہ اس کتاب کا فارسی میں بھی ترجمہ ہونا چاہئے تاکہ ایرانی حضرات بھی اس علمی تحفے سے مستفید ہوسکیں۔ ممتاز نقاد پروفیسر عتیق اللہ نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں اپنی روشن دماغی کا ثبوت دیاہے۔ انہو ں نے غالب کے ہرشعر کو چیلنج کی طرح قبول کیاہے اور اُس کی عالمانہ تعبیر پیش کی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری ادبی دنیا میں یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت سے جانی جارہی ہے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر علی احمد فاطمی نے فرمایاکہ نارنگ صاحب نے اپنی اس کتاب میں غالب کے اشعار کی نئی توجیحات پیش کی ہے جسے پڑھ کر ہمارا دماغ روشن ہوجاتاہے۔ پروفیسر نارنگ نے شونیتا کے فلسفے کو غالب کی شاعری سے جس طرح مربوط کیاہے اُس سے اس کتاب کی وقعت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ اس کتاب کو لکھ کر پروفیسر گوپی چندنارنگ نے اپنا شماراہم غالب شناسوں میں کرالیاہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالب کو نئے طریقے سے دریافت کیا ہے۔ غالب نے اپنے کلام میں جس نئی شعریات کو وضع کیاآپ نے اس کتاب میں اُس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ فلسفہ شونیتاپربھی جس عالمانہ طریقے سے آپ نے گفتگو کی ہے اس سے پہلے اردو دنیامیں اس انداز سے کسی نے گفتگو نہیں کی تھی۔ نظام صدیقی نے فرمایاکہ کتاب کے ہرباب میں پروفیسر نارنگ نے غالب کے اشعار کی جس عالمانہ اندازمیں شرح پیش کی ہے اس سے یہ کتاب غالبیات کی دنیامیں سنگِ میل کی حیثیت کی حامل ہوگئی ہے۔ عالمی اردو ٹرسٹ کے چیرمین جناب اے رحمان نے کہاکہ ہماری ادبی دنیامیں غالبیات کے تعلق سے اتنی اہم اور معنی خیز کتاب کم ہی لکھی گئی ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے شونیتاکے ساتھ ساتھ جدلیاتی وضع کو مفکرانہ اندازمیں واضح کیاہے۔ ساہتیہ اکادمی کے پروگرام آفیسر ڈاکٹر مشتاق صدر نے فرمایاکہ حالی کی ’’یادگارغالب‘‘ کے بعد اگر کسی کتاب نے ہمارے دل و دماغ کو متاثرکیاہے تو وہ نارنگ صاحب کی موجودہ کتاب ہے۔ یہ کتاب اکیسویں صدی کی اُن شہرہ آفاق کتابوں میں سے ایک ہے جس کاہر صفحہ مصنف کے عالمانہ افکار کی ترجمانی کررہاہے۔نوجوان ناقد ڈاکٹر مولیٰ بخش نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں ہندستان کی پوری تاریح اور فلسفے کے تناظرمیں غالب کی شاعری کودیکھاہے۔ موجودہ دورمیں اس کتاب کی اس لئے بھی اہمیت ہے کہ جہاں ہر طرف ظلم و تشدد کاماحول گرم ہے وہیں یہ کتاب ہمیں روشنی بھی عطا کررہی ہے۔ ڈاکٹر راشدانورراشد نے کہاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالبیات کے چھپے ہوئے اُن گوشوں پر گفتگو کی ہے جس پر ابھی تک کسی کی نظرنہیں گئی تھی۔جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے ابتدامیں کتاب کاتعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس کتاب کاہر صفحہ اور ہر لفظ غالبیات کی ایک نئی بازیافت ہے اس کتاب کا دلچسپ پہلویہ بھی ہے کہ مصنف نے غالب کے اردو اشعار کے ساتھ ساتھ فارسی اشعار پربھی عالمانہ گفتگو کی ہے اور فارسی کے بڑے شعرا فردوسی، رومی اور بیدل کے کلام کے تناظر میں غالب کے کلام کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔اس مذاکرے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں پروفیسر گوپی چند نارنگ خود موجود تھے اور انہوں نے اس مذاکرے کے لئے غالب انسٹی ٹیوٹ کاشکریہ اداکرتے ہوئے فرمایاکہ یہ مجھ پر ایک قرض تھاجومیں نے اداکردیا۔ اس لئے کہ غالب کو سمجھنا آسان نہیں ہے، غالب پر لکھتے ہوئے میں ہمیشہ ڈرتاہوں کہ ممکن ہے حق ادا نہ ہوسکے۔ آپ نے یہ بھی کہاکہ غالب پرسب سے زیادہ لکھاگیااور سب سے کم غالب کوسمجھا گیا۔ غالب کی شاعری کو پڑھ کر ہندستان کی تہذیب و تاریخ کا علم ہوتاہے کیونکہ غالب کے کلام کی جڑیں اس ملک کے تمام مذاہب کی جڑوں سے ملی ہوئی تھیں۔ غالب کی شاعری شعریت سے بھرپور ہے جس کو حالی نے بھی نیرنگیِ نظر کہاہے۔ مجلس فروغ اردو ادب دوحہ، قطر کے چیرمین محمد عتیق نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔ جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین اور مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نارنگ صاحب کو اُن کی معرکۃ الآرا کتاب پر مبارک باد پیش کی۔ چار گھنٹے تک چلنے والے اس تاریخی مذاکرے میں دلی اردو اکادمی کے سکریٹری انیس اعظی، محمد شمیم، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر ابوظہیر ربّانی، ڈاکٹر سہیل انور، ڈاکٹر ادریس احمد، اقبال مسعودفاروقی، محسن شمسی کے علاوہ بڑی تعداد میں اہل علم موجود تھے۔