Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Tuesday, February 4, 2014

غالب انسٹی ٹیوٹ میں ثروت خان کی کتاب پر مذاکرہ


غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پر معروف افسانہ نگار ڈاکٹر ثروت خان کی کتاب ’’شورشِ فکر‘‘ پر ایک مذاکرے کااہتمام کیا
گیا۔جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے ڈاکٹر ثروت خان کی اس اہم کتاب پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اس کتاب میں جتنے بھی مضامین ہیں اُن میں آپ نے نئے معنی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے خصوصاً خواتین کے مسائل پر جتنی سنجیدگی سے آپ نے گفتگو کی ہے اس سے مصنف کے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی ہوتی ہے۔ اس موقع پر پروفیسر عتیق اللہ نے بھی اپنی صدارتی گفتگو میں ثروت خان کی کتاب کے چند نکا ت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ثروت کی اچھی تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ا یک بہترین تخلیق کارہیں،اُن کاناول اندھیرا یُگ اُن کی تخلیقی کاوشوں کاایک شاہکار نمونہ ہے اور موجودہ کتاب ’شورشِ فکر‘‘ اُن کی عمدہ تنقید کی خوبصورت مثال ہے۔ مذاکرے کے مہمانِ خصوصی پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ اس کتاب میں غالب کی فارسی شاعری پر جو آپ نے گفتگو کی ہے اُسے پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی ادب پر بھی آپ کی نظر ہے۔ اخترشیرانی پر لکھا ہوا آپ کا مضمون بھی نئی جہتوں کی طرف اشارہ کررہاہے۔ ڈاکٹر نگار عظیم نے اپنی تقریر میں فرمایاکہ ثروت خان کی اس کتاب میں زیادہ تر مضامین تنقیدی ہیں چونکہ وہ ایک اچھی تخلیق کار ہیں لہٰذا انہو ں نے اپنے تنقیدی مضامین میں بھی اہم تخلیقی گوشے پیدا کئے ہیں جس سے اس کتاب کی انفرادیت میں اضافہ ہواہے۔ ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے اپنی پُرمغز گفتگو میں کہا کہ ثروت خان ہماری اُن تخلیق کاروں میں ہیں جنہوں نے ادبی دنیاکو پچھلے دس برسوں میں ۵اہم کتابیں دیں اور یہ تمام کتاب علمی و ادبی دنیا میں اہمیت کی حامل ہیں۔خصوصاً شورشِ فکر اُن کی تنقیدی فکر کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ جناب پیغام آفاقی نے کہاکہ ثروت کی اس کتاب کی خاص بات جوقاری کو متوجہ کرتی ہے وہ اُن کے دلائل ہیں وہ اپنی باتوں کو مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ آپ نے مزید کہاکہ آپ نے راجستھان کے کلچرکوجس خوبی کے ساتھ پیش کیاوہ انہیں کاحصہ ہے اس لئے کہ وہ خود راجستھان کی تہذیب سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر مولیٰ بخش نے کہاکہ ثروت خان بنیادی طورپر ایک تخلیق کارہیں جو کہ اُن کی بنیادی پہچان ہے مگر اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے تنقیدی مضامین میں بھی بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرتی ہیں۔ اس کتاب میں عورتوں کی حریت کے مسئلے کو آپ نے بڑی بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ اٹھایاہے۔ جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب کاتعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں شامل تمام مضامین میں سے میں دو مضامین جو غالب اور انیس پر لکھے گئے ہیں اُن مضامین میں ثروت خان نے انیس کی شاعری میں انسانی رشتو ں کی عظمتوں کو جس اندازمیں پیش کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ڈاکٹر ثروت خان نے خود اپنی تخلیق کے بارے میں مختصراً اتناکہاکہ خواتین کاقلم مردوں کے قلم کی برابری کرنے کے لئے نہیں اٹھتاکیونکہ گودں کے پالوں سے بھلا کیا مقابلہ بلکہ عورت کافکری نظام تو انسان کا انسان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک اور استحصال کے خلاف احتجاج کرتاہے۔ یہ استحصال چاہے مردکاہو یا عورت کا، ملک ہو یاقدرت کا، زمین کا ہو یافضا کا استحصال کرنے والے سے سوال بھی کرتا ہے اور جواب بھی مانگتا ہے۔ جس کے بطن سے فکرکا عنصر جنم لے کر سماج کو بیدا رکرتا ہے۔آخرمیں جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین اور ثروت خان کاشکریہ اداکرتے ہوئے فرمایاکہ ہمیں اُمیدہے کہ یہ ثروت خان کی یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوگی۔ 

تصویر میں دائیں سے بائیں:۔ڈاکٹر رضاحیدر، ڈاکٹرثروت خان، پروفیسر عتیق اللہ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر شریف حسین قاسمی، جناب شاہد ماہلی