
--
یومِ غالب کے موقع پر عالمی مشاعرہ
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ، آغاخان فاؤنڈیشن، انجمن ترقی اردو دلّی شاخ و غالب اکیڈیمی کے تعان سے غالب کی یومِ وفات(یومِ غالب) کے موقع پر ’’کلامِ غالب کا تجزیہ‘‘ کے موضوع پرمنعقدبین الاقوامی سمینارکے موقع پر ۱۶؍فروری شام ۶بجے ایوانِ غالب میں عالمی مشاعرہ کابھی انعقاد کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کومحظوظ کیا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت عہد حاضر کے بزرگ شاعر جناب گلزار دہلوی نے انجام دی۔ نظامت کا فریضہ جناب معین شاداب نے انجام دیا۔ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر رضاحیدر نے اس مشاعرے کی تاریخی حیثیت پرروشنی ڈالی۔اس مشاعرہ کا آغاز شاہد ماہلی کی نظم ’’غالب‘‘ سے ہوا۔رفعتِ فکر و تخیّل کا سراپاکہئے
معنی و ہیئت و اسلوب میں تنہا کہئے
اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پیش ہیں کچھ شعرا کرام کے منتخب کلام:
تو کہ ہر شخص کا سمجھایا ہوا تُو
کس قدر اور لگا لوٹ کے آیاہوا تو
نسرین،بھٹی (لاہور)
میری پہلو تہی کے بھی نئے پہلو نکل آئے
میں جس در پر بھی دستک دوں وہیں سے تو نکل آئے
زاہد نبی(لاہور)
ہم ان سے کم ہی امید افادہ رکھتے ہیں
غلط ہیں وہ جو توقع زیادہ رکھتے ہیں
ابرار کرتپوری
ہر مسلک ہر مکتب عشق نہیں ہوتا
سب لوگوں کا مذہب عشق نہیں ہوتا
معین شادب
گلزار آبروئے زباں اب ہمیں سے ہے
دلّی میں اپنے بعد یہ لطف سخن کہاں؟
گلزار زُتشی دہلوی
پوچھئے دل سے عشق میں ایسے قدم اٹھائے کیوں
خود ہے بنائے دردِ دل کرتا ہے ہائے ہائے کیوں
متین امروہوی
دہلی سخنوروں کا ہے مرکز مگر میاں
اردو کے کچھ چراغ تو،پنجاب میں بھی ہیں
جتندر پرواز
پسند آئے خدا باعمل فقیر تجھے
پسند نہ آئے ذرا بے عمل امیر تجھے
عارف دہلوی
بدل سکے نہ شب و روز ان کی فطرت کو
گلوں کے ساتھ تھے لیکن وہ خار خار رہے
اقبال مرزا(لندن)
گھرانے پر اثر پڑنے لگا ہے دور حاضر کا
روایت ختم ہوتی جارہی ہے خاندانوں کی
عظمی اختر
فقیری آج تک فطرت ہے میری
حویلی میں بظاہر رہ رہا ہوں
جاوید دانش(کینیڈا)
ہمیں نصیب ہیں صحرا نوردیاں یارو
نہ اپنے گھر کو نہ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
سلیم صدیقی
بہت شدت سے یاد آیا بچھڑ جانے پہ اس کے
وہ لمحہ، یہ سفر آغاز جب ہم نے کیا تھا
سراج اجملی
آکے جو اُس نے بسائی دل کی بستی ایک دن
پھر صدا دینے لگا یہ ساز ہستی ایک دن
نسیم نیازی
ساتھ فرعون لے گیا حسرت
لاکھ چاہا مگر خدا نہ ہوا
ماجد دیوبندی
نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پائی
زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے
پروفیسر غضنفر
اب نہ سمجھوتہ کروں گا کبھی رفتار کے ساتھ
پھٹپھٹی میں نے لگادی ہے تری کا رکے ساتھ
اقبال فردوسی
مہکی مہکی چاندنی، جھلمل ندی کاذائقہ
رُخ پہ زلفوں نے دیا خوش منظری کا ذائقہ
ظفر مراد آبادی
ہتک آمیز نظروں سے کوئی دیکھے جہاں ہم کو
قدم رکھنا بھی اس دہلیز پر اچھا نہیں لگتا
وقار مانوی
انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہد ماہلی نے تمام سامعین کافرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔
۔۔
![]() |