Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Monday, August 31, 2015

ڈاکٹر نجمہ رحمانی کی کتاب پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام شام شہریاراں کے موقع پر ڈاکٹر نجمہ رحمانی (شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی) 
کی کتاب ’’اردوافسانہ کا سفر‘‘ پرایک پروقار مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔اس مذاکرہ کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی۔ مذاکرہ کے ابتدا میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ کتاب طلباء،اساتذہ اور اہل علم کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے نئے اردو افسانے کے تعلق سے ممتازادیبوں اور دانشوروں کے مضامین کو جمع کرکے موضوع کے ہر پہلو علمی مباحث قائم کیے ہیں۔پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ محفل’ شامِ شہرِ یاراں‘کے موقع پر اس علمی کتاب پر خاطر خواہ بحث ہوئی ۔ادب کی دنیا میں ترمیم و اضافے ہوتے رہتے ہیں اس لئے عدم تکمیل کا احساس تو رہے گا لیکن ان کی اس کوشش پر مجھے ذاتی خوشی ہوئی ۔ڈاکٹرابوبکرعباد نے کہا ہے کہ ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اس کتاب سے افسانے کی تاریخ بھی مرتب کی ہے،افسانے کے فن پربھی بحث کی ہے اور افسانے کے حوالے سے نظریاتی مبحث بھی پیش کی ہے۔ڈاکٹر خالد جاوید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک عرصے سے ایسی کتاب کا انتظار تھا جو افسانے کی تشریح وتفہیم کا حق ادا کر سکے ،ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اس کمی کو پور اکیا۔جناب خورشید اکرم نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ افسانہ پڑھی جانے والی صنف ہے،اب قاری ہی مفقود ہوتے جارہے ہیں پھر بھی ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اس نوعیت کی کتاب ترتیب دے کر قاری کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ افسانے اور غیر افسانے میں تفریق کو سمجھا جائے۔ ڈاکٹر خالد علوی نے اس کتاب کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے منتخب معیاری افسانوں کو بھی انتخاب میں جگہ دی ہے ،انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر جو ہورہا ہے اُسے اخباروں میں پڑھتے ہیں لیکن گھروں کے اندر جو ہوتا ہے اسے کتابوں و افسانوں میں ہم محسوس کرتے ہیں ۔پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے ڈاکٹر نجمہ رحمانی کو ان کی اس کتاب کے لئے مبارک باد دیا۔بالخصوص کتاب کے مقدمہ کے لئے مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ میں انہوں نے ایسے مباحث قائم کئے ہیں کہ جوکتاب کا حق ادا کرتے ہیں۔پروفیسر شمس الحق عثمانی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آخر کیا وجہ کہ غزل اور افسانے ایک ہی دورمیں آنکھیں کھولیں۔لیکن افسانہ پیچھے کیوں رہ گیا؟آپ نے مزید کہا کہ ۳۷ مضامین پر مشتمل اس کتاب میں کم از کم پندرہ ایسے مضامین ہیں جو از سرِ نو تفہیم کی دعوت دیتے ہیں ۔اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اس مذاکرہ میں اپنے خیالا کا اظہار کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کیا۔اس جلسہ میں بڑی تعداد میں طلباء، اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز شامل تھے۔

پروفیسر ارتضیٰ کریم کے ساتھ ایک ملاقات

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے نئے ڈائرکٹرپروفیسر ارتضٰی کریم
کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔اس خاص جلسے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق ارحمن قدوائی نے کی ۔اس جلسہ میں دلّی کی تینون یونیورسیٹیوں کے اردو و فارسی اساتذہ کے علاوہ تمام اردو اداروں کے سر براہوں کو مدعو کیا گیا تھا۔اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلرجناب شاہد مہدی نے کہا کہ قومی کونسل اردو کاایک بڑا علمی سرکاری ادارہ ہے۔اس ادارہ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ادب اور زبان کو فروغ دے۔پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ارتضی کریم دلجمعی کے ساتھ کام کریں گے اور اردو کی رگوں میں تازہ خون دوڑانے کی کوشش کریں گے ۔پروفیسرقاضی عبید الرحمن ہاشمی نے کہا کہ یہ ہمارا اخلاقی فرض بھی بنتا ہے کہ ہم نئے ڈائرکٹر کی ہمت افزائی کریں۔پروفیسر ارتضیٰ کریم کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہمت اور حوصلہ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، شعبہ فارسی کے صدر پروفیسرعراق رضا زیدی نے اپنے اظہارِ خیال میں کہا کہ فارسی زبان اردو زبان کی پاسدار ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ کونسل کو اردو والوں کے ساتھ ساتھ فارسی کے اسکالرز کوبھی ادارے سے وابستہ کریں۔دہلی یونیورسٹی شعبہ فارسی کے صدر پروفیسرچندر شیکھر نے کہا کہ اردو زبان اُسی وقت ترقی کے منازل طے کرے گی جب ہم اُس کوفارسی سے بھی جوڑ کر دیکھیں۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ،معین الدین جینا بڑے نے پروفیسر ارتضی کریم سے اپنی پرانی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ارتضیٰ کریم کا ایک جملہ ہمیشہ یادآتا ہے ،جب انہوں نے مجھ سے پہلی ملاقات میں کہا تھا کہ ’ادارے ارادے سے چلتے ہیں ‘ اور یہ ارادے کے پکّے ہیں۔کشمیر یونیورسٹی سے تشریف لائے پروفیسر قدوس جاوید نے کہا فارسی و عربی زبان کو ساتھ لیکرہی اردو زبان کا فروغ ممکن ہے ۔آپ نے مزید کہاکہ کونسل کواپنے اشاعتی کام کو مزید آگے بڑھانا چاہئے۔دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین ڈاکٹر ماجد دیوبندی نے کہاکہ این سی آر ٹی کے طرز پر قومی کونسل کے کتابوں کی قیمت بھی کم ہونی چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں۔چوتھی دنیا کی ایڈیٹرڈاکٹر وسیم راشد نے اپنی گفتگو میں پروفیسر ارتضیٰ کریم کوان کواس نئے منصب کے لئے مبارک باد پیش کی۔جناب چندر بھان خیال نے ارتضیٰ کریم سے اپنی برسوں کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنے عزم و ارادہ کے پکّے ہیں لہٰذا یہ کونسل کو بھی ترقی کے منازل پہ لے جائیں گے۔مشہور ناول نگارجناب پیغام آفاقی نے کہا کہ یہ دور چیلنجز سے بھرا دور ہے لہٰذا ہمیں اردو کوبلند مقام پے لے جانے کے لئے دوسری زبانوں کے لٹریچراورٹیکنیک سے بھی واقف ہونے کی ضرورت ہے۔اوپن اسکول کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسرڈاکٹر شعیب رضا خاں نے نئے ڈائرکٹر کو مبارک باد دیتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی کہ امید ہے کہ اردو زبا ن کے فروغ کے لئے قومی کونسل ،نیشنل اوپن اسکول کے بچوں کے اردو کی نصابی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ منظرِ عام پر لانے میں اپنا تعاون دے گی۔غالب اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ ماضی میں قومی کونسل کے ذریعہ ہمارے یہاں کمپیوٹر کا کورس جاری تھا ، جس وجہ سے آج بھی طلباء کثیر تعداد میں اردوزبان و ادب و نصاب سے متعلق معلومات لینے آتے ہیں ۔اور ہمیں امید ہے نئے ڈائرکٹر کی سرپرستی میں یہ کام مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ساہتیہ اکادمی کے پروگرا م آفیسرڈاکٹر مشتاق صدف نے کہا کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم ایک فکشن نقاد کی حیثیت سے علمی دنیا میں جانے جاتے ہیں اور یہ خوش آئند بات ہے کہ فکشن حضرات بھی اب انتظامی امور میں پیش پیش ہیں ۔جلسہ کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر ارتضیٰ کریم کو اُن کے اس نئے منصب کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اردو دنیا کو پروفیسر ارتضیٰ کریم سے کافی توقعات وابستہ ہیں اور ہمیں پوری امید ہے کہ یہ ہماری توقعات پر پورے اُتریں گے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے اپنے افتتاحی کلمات میں تمام مہمانوں کااستقبال کرتے ہوئے پروفیسر ارتضیٰ کریم کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم اردو دنیا میں ایک بڑے نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں،ہمیں پوری امید ہے کہ وہ نئے ڈائرکٹر کی حیثیت سے اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی ایک اہم رول ادا کریں گے۔اس جلسہ میں بڑی تعداد میں صحافی، ریسرچ اسکالرز، یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔

’’بلراج مَین را: ایک ناتمام سفر‘‘ پر مذاکرہ منعقد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ’’شامِ شہریاراں‘‘ کے موقع پر نوجوان اسکالر اور شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اُستاد ڈاکٹر سرورالہدیٰ کی تازہ ترین کتاب’’بلراج مَین را: ایک ناتمام سفر‘‘ پرایک مذاکرے کا اہتمام ۲۹؍مئی ۲۰۱۵ ایوانِ غالب میں کیاگیا۔ اس جلسے کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور اورمہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب بلراج مین رانے شرکت کی۔ڈاکٹررضاحیدر نے ابتدا میں کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس خیال کااظہارکیاکہ ’’بلراج مین راایک ناتمام سفر‘‘مین را پر پہلی باضابطہ کتاب ہے۔ اس طرح کی کوئی کتاب کسی عہدِحاضر کے کسی اہم افسانہ نگار پر نہیں لکھی گئی۔ڈاکٹر خالد جاوید نے بلراج مین را کی افسانہ نگاری کاتخلیقی انداز میں ذکرکیا اور اس خیال کااظہارکیاکہ جدیدیت کی کہانی بلراج مین را کی کہانیوں کے بغیر اپنا کوئی اختصاص قائم نہیں کرسکتی۔ سرورالہدی نے مین را کی کہانیوں کوایک سنجیدہ قاری کے طورپر سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے،انہوں نے تجزیہ میں اُن تمام امکانات کو کنگھالنے کی کوشش کی ہے جو عموماً تنقیدی اناکے سبب اوجھل رہے ہیں۔ریسرچ اسکالر عبدالسمیع نے دواقتباسات پڑھ کر سنائے۔فرحت احساس نے مین را اور اُن کے عہد کواُردو کاایک تخلیقی عہد قرار دیتے ہوئے مین را کے امتیازات کی نشاندہی کی،انہوں نے اس خیال کااظہارکیاکہ سرورالہدی نے مین را کے افسانوی متن کا جس انداز سے تجزیہ کیا ہے اس سے مصنف اور عہدکی مکمل نفی نہیں ہوتی،اس انداز نظرکوکسی متن اور خصوصاً مین را کے متن کوپڑھنے کاسب سے اچھازاویہ قرار دیا جاسکتا ہے۔اس مطالعہ سے مین را کا پورا عہد سامنے آجاتاہے اور مین را ایک ذہانت وبغاوت اور بے پناہ تخلیقیت کا استعارہ بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی نے مین را اور اُن کے عہد کو یاد کرتے ہوئے اس دُکھ کااظہارکیاکہ وہ عہد شاید دوبارہ واپس نہ آسکے۔انہوں نے مین راکی کہانیوں کومنفردقرار دیتے ہوئے اُس عہد کی کہانیوں کے ساتھ بھی رکھ کر دیکھنے پر زور دیا۔انہوں نے بلراج مین را ایک ناتمام سفر کومین را اورنئی کہانی کاایک اہم تجزیاتی مطالعہ قرار دیا اور اس بات سرورالہدی کو مبارک باد پیش کی۔ پروفیسر شمیم حنفی نے بلراج مین را ایک ناتمام سفر کی اشاعت، مذاکرے اور مین را کی شرکت کو ایک اہم واقعہ قرار دیا۔انہوں نے اس خیال کا اظہارکیاکہ سرورالہدی کی اس کتاب کی اشاعت سے نہ صرف مین را بلکہ جدیدیت کے افسانوی سفر کاراز بھی کھلتانظر آتاہے۔ سرورالہدی نے مطالعہ کا جو رُخ اختیار کیاہے اُسے ہم متن کے گہرے مطالعے کا نام دے سکتے ہیں۔اس کی ایک مثال کتاب کاایک مضمون ’’کرشن چندر اور بلراج مین را کی سڑک‘‘ ہے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی صدارتی تقریر میں بلراج مین را ایک ناتمام سفر کی اشاعت کو نئے افسانہ کی تنقید میں ایک اہم اضافہ قرار دیا اور اس خیال کااظہارکیاکہ سرورالہدی نے ایک ایسی کتاب لکھ دی ہے جس کو پڑھ کر یہ امید بندھتی ہے کہ تنقیدی سرگرمی میں متن بنیادی حوالے کے طور پر استعمال ہوگا۔سرورالہدی نے متن سے جس طرح کا مکالمہ کیا ہے وہ نقاد سے زیادہ ایک قاری کا مکالمہ ہے۔مجھے خوشی ہے کہ بلراج مین را پر ایک ایسی کتاب آگئی جوحوالے کے طورپر استعمال ہوگی۔ لکھنؤ سے تشریف لائے اُردو کے استاد ڈاکٹر شفیق حسین شفق نے بھی اس موقع پراپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ بلراج مین را کانام جدید اُردو افسانہ میں اتنا اہم ہے کہ اُن کے تذکرے کے بغیر جدید اردو افسانہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس مذاکرے میں مختلف علوم و فنون کے افراد اور یونیورسٹیوں کے طلبا کی تعداد موجود تھی۔