Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Saturday, May 24, 2014

غالب انسٹی ٹیوٹ میں فخرالدین علی احمدمیموریل لکچرکاانعقاد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ۲۴ مئی کو ’’ہندستان کی قومی تحریک کی تاریخ پرمختلف نظریات‘‘کے موضوع پرفخرالدین علی احمدمیموریل لکچرمنعقد کیا گیا۔ اس موقع پر ممتاز مؤرخ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریٹس عرفان حبیب نے فرمایاکہ قومی تحریک ہندستان کی اہم تحریکوں میں سے ایک ہے اور اس تحریک کی اہمیت کوکبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قومی تحریک کے بارے میں مؤرخوں کے درمیان جو موضوعات ہیں ان پر بحث کی جانی چاہیے، ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی ابتدا کے بعد قومی تحریک کے مخالفین میں کیا تصور تھااوراب قومی تحریک کاکیا نظریہ ہونا چاہیے اس پر خاطر خواہ روشنی ڈالی جانی چاہیے۔آپ نے مزید کہاکہ روشن خیال لوگوں کی نظر میںیہ تحریک اصلاحی تحریک تصور کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں آپ نے گاندھی جی اور مختلف مفکرین کے نقطۂ نظر پر بھی مختصراً روشنی ڈالی۔ قومی تحریک کی افادیت کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ تحریک ایک مشن تھی جوسرمایہ داروں کے تصور کی نفی کرتی ہے اور کسانوں اور مزدوروں کو اس کااپناحق دلانے کی تائید کرتی ہے۔ بعض مؤرخوں کے نقطۂ نظر کاحوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہاکہ اس تحریک نے دو قومی نظریہ کی بھی نقطہ چینی کی تھی۔ برٹش رول ان انڈیا۱۹۳۴ء میں اربندوگھوش کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ہندستان کے لوگوں کااصول تشدد نہیں ہے بلکہ شکتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے بعض سخت گیر تنظیموں نے ہندستان کے بجائے ہندوستھان کانعرہ دیا جس نے قومی تحریک کے مشن کونقصان پہنچایا۔پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے اختتامی کلمات میں یہ بھی کہاکہ موجودہ دورمیں قومی تحریک کوسمجھنے اور سمجھانے کی بیحد ضرورت ہے۔اگرہم نے قومی تحریک کے اصول و نظریات سے لوگوں کو واقف نہ کرایاتویہ تحریک بھی دم توڑ دے گی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے افتاحی کلمات میں کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیاں بہت محدود تھیں لیکن اب اس کے موضوعات کو وسیع کیاگیا۔ مختلف نظریات،پہلوؤں اور روایتوں کے موضوعات پرلکچر کرایا جاچکاہے اور کرایا جارہاہے۔ پروفیسر عرفان حبیب کاذکر کرتے ہوئے آپ نے کہاکہ پروفیسر عرفان حبیب کی کی تحریریں، اور تقریریں اتنی اہم ہیں کہ اور ان سے ہندستان اوردیگر ممالک کے اسکالرز استفادہ کرتے ہیں اورآپ اپنے عہد کی تاریخ کو بہت خلوص کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اپنی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر پرویز علی احمد،وائس چیئرمین،غالب انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ پروفیسر عرفان حبیب کے اس لکچر سے موجودہ صورت حال اور قومی تحریک کو سمجھنے میں ضرورمددملے گی۔پروفیسر عرفان حبیب کی دانشوری کاذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر پرویز نے مزید کہاکہ آپ کے اہم لکچرز ملک اوربیرونِ ملک میں بھی بڑے قدر کی نگاہوں سے پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدر نے نظامت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ فخرالدین احمد لکچرغالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کاایک اہم حصہ ہے۔اس موقع پرملک کے اہم دانشوروں اورمؤرخوں نے اپنے خیالات کااظہارکیاہے۔اور آج پروفیسر عرفان حبیب کی موجودگی نے اس لکچر کے وقار میں اضافہ کیاہے۔اس لکچر میں دہلی ہائی کورٹ کے جج اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی جسٹس بدر دُرریزاحمدکے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ،جواہر لعل نہرو،دلی یونیورسٹی،اوردلی یونیورسٹی کے کالجوں کے اردو ،فارسی اورتاریخ کے اساتذہ،اسکالرز اورطلبا کے علاوہ وکلاء،دہلی ہائی کورٹ کے ججز اور مختلف علوم و فنون کے افراد کثیر تعداد میں موجود تھے۔  
تصویر میں دائیں سے: ڈاکٹر رضاحیدر، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر عرفان حبیب، ڈاکٹر پرویز علی احمد، جسٹس بدر دُرریزاحمد











Wednesday, May 7, 2014

پروفیسرشمس الرحمن فاروقی کا غالب توسیعی خطبہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ۶ مئی کو ’’غالب توسیعی خطبہ‘‘ کے موقع پر ممتازادیب و دانشوراور ماہرِ غالبیات پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے
’’غالب کے غیر متداول دیوان‘‘ کے موضوع پر خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ غالب کا غیر متداول دیوان ایک عرصے سے لوگوں کی توجہ کا اس طرح مرکز نہیں ہے جیسے اُسے ہونا چاہئے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے یہ سوالات بھی اٹھائے کہ غیر متداول دیوان میں جو کلام موجود ہے اور جس کے بارے میں غالب نے یہ لکھاہے کہ انہو ں نے اس کلام کو مسترد کردیاتھاوہ مسترد کلام اصلاً کس کا رد کیاہواہے۔ آپ نے مزید فرمایاکہ یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ غالب نے اپنی عمرکے آخری حصّے میں مشکل گوئی ترک کردی اور میرکا انداز اختیار کرلیایہ بات بھی سراسر غلط ہے کیونکہ غالب کا تمام معروف اور مشہورکلام اُن کے ابتدائی زمانے کا کہاہوا ہے۔اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر شمس الرحمن فار وقی کااستقبال کرتے ہوئے کہاکہ آپ اس عہدکے بڑے ماہرِ غالبیات میں سے ہیں۔ غالب پر آپ نے جو کچھ تحریر کیااُسے علمی و ادبی حلقوں میں کافی پسند کیاگیا۔ آپ کی کتاب’’تفہیم غالب‘‘ غالب فہمی میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے یہ بھی فرمایاکہ ’’غالب کے غیر متداول دیوان‘‘ پر آپ کی جوبھی گفتگو ہوئی اُس سے یقیناًغالب تحقیق و تنقید میں ایک اہم اضافہ ہوگا۔ جلسے کی صدارت کرتے ہوئے معروف غالب شناس ڈاکٹر خلیق انجم نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے عالمانہ خطبے پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ غالب کے غیر متداول دیوان کے تعلق سے اردو اور فارسی کے ادیبوں کے ذہنوں میں شک و شبہات اور غلط فہمیاں ہیں آپ کے اس خطبے کے بعد ختم ہوجائیں گی۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے علمی و ادبی مرتبے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ اردو زبان و ادب خصوصاً غالبیات کے حوالے سے آپ کی کاوشوں کو اردو دنیامیں ہمیشہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھاجائے گا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب توسیعی خطبہ کی تاریخی حیثیت پرروشنی ڈالا اور کہاکہ غالب توسیعی خطبہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ایک اہم پہچان ہے ملک اور بیرون ملک کے کئی بڑے ادیبوں نے غالب توسیعی خطبہ پیش کیاہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی ایک ایسے موضوع پر خطبہ پیش کر رہے ہیں جس پر کم گفتگو ہوئی ہے ہمیں پوری امید ہے کہ آپ کے اس خطبے سے غالب کے غیر متداول کلام کی اہمیت کوبھی ہم سمجھ سکتے ہیں۔ شاہد ماہلی نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے خطبے سے ہمارے علم میں اضافہ ہوااور ادارے کا وقار بھی بڑھا ہے۔اس موقع پر پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی اہم کتاب’’تفہیم غالب‘‘ کے تیسرے ایڈیشن کی رسمِ رونمائی بھی ہوئی۔ جلسے میں امریکہ کے اہم ڈاکٹر اور اردو کے ادیب جناب سیدامجد حسن بھی موجود تھے جنہیں غالب انسٹی ٹیوٹ کی کتابوں کا تحفہ پیش کیاگیا۔ اس کے علاوہ پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر اسلم پرویز، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر شمس الحق عثمانی،ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر خالد اشرف، ڈاکٹر اخلاق احمد آہن، پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر عراق رضازیدی، ڈاکٹر اطہر فاروقی، اے رحمان، ڈاکٹر اشفاق عارفی، ڈاکٹر شعیب رضا خاں، ڈاکٹر احمد محفوظ، ڈاکٹر نجمہ رحمانی، ڈاکٹر ارجمند، ڈاکٹر نشاں زیدی، ڈاکٹر جاوید رحمانی، ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، مسعود فاروقی کے علاوہ بڑی تعداد میں 
اہل علم موجود تھے۔