Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Monday, December 15, 2014

سالانہ غالب تقریبات

غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کاانعقاد
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار کی افتتاحی تقریب۱۹؍دسمبر کوشام چھ بجے منعقدکی گئی جس میں نائب صدر غالب انسٹی ٹیوٹ، پرویز علی احمد کے دستِ مبارک سے غالب انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس موقع پرعہد حاضر کے معروف نقادپروفیسرقاضی افضال حسین کوغالب انعام برائے اردو تحقیق و تنقید،فارسی کے ممتاز اسکالرپروفیسرنبی ہادی کوفخرالدین علی احمدغالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید،مشہور افسانہ نگارپروفیسر عبدالصمد کوغالب انعام برائے اردو نثر،معروف شاعرجناب مضطرمجازکوغالب انعام برائے اردو شاعری ملک کے اہم اداکار اور تھیئٹر آرٹسٹ جناب ٹام آلٹر کوہم سب غالب انعام برائے اردو ڈرامہ سے نوازا گیا اورپروفیسر شمس الحق عثمانی کومجموعی ادبی خدمات کے ایوارڈ سے سرفرازکیا گیا۔ ہرایوارڈ یافتگان کی خدمت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے ۷۵ہزار روپے اورمومنٹوپیش کیاگیا۔
اس موقع پرغالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ ہم غالب تقریبات کے موقع پر نہ صرف غالب کو یاد کرتے ہیں بلکہ ہم اُن ادیبوں اور دانشوروں کوبھی یاد کرتے ہیں جنہوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیاہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے یہ سمیناراردو، حالی، شبلی اور محمد حسین آزادکی نثرپرکیاہے ان حضرات نے اردو نثرکو اتنی تونائی عطاکی کہ آج ہماری اردو نثر ان کی رہینِ منت ہے۔
ممتاز ادیب و دانشورپروفیسر ابوالکلام قاسمی نے بین الاقوامی غالب سمینارجو:’’ جدید اردو نثر کے معمار:محمد حسین آزاد حالی اور شبلی‘‘کے موضوع پر منعقد کیااُس کا افتتاح اپنے کلیدی خطبہ سے کیا۔ پروفیسرابوالکلام قاسمی نے فرمایاکہ محمد حسین آزاد، حالی اور شبلی نے اردو ادب کو اتنی اہم کتابیں دیں جو ہمارے لئے دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے اپنی گفتگو میں محمد حسین آزاد کی نثرکاخصوصیت کے ساتھ ذکرکیا۔ حالی کی نثرکاذکر کرتے ہوئے آپ نے کہاکہ مقدمہ شعروشاعری ہمارے ادب کی اتنی اہم کتاب ہے جو آج بھی ہماری رہنمائی کررہی ہے۔ حالی کی تنقید نگاری نے بہت سے نئے نئے پہلو پیش کیے۔ 
جلسہ کی صدارت کرتے ہوئے جسٹس جناب آفتاب عالم نے اپنے صدارتی کلمات میں فرمایاکہ ہمیں اِن تمام اسکالرز کو غالب انعامات دیتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے۔ آپ نے موضوع کے تعلق سے فرمایاکہ اِن تینوں ادیبو ں نے اردو نثرکے فروغ میں اتنا اہم کردار ادا کیاہے جسے ہماری ادبی تاریخ میں بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا، اِن تینوں حضرات نے نثرکے علاوہ اور بھی کئی اردو اصناف خدمات ادا کی ہیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضاحیدر نے افتتاحی تقریب کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ کارکردگی و ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات اور مہمانان کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ ادارہ اپنے علمی ،ادبی،تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے نہ صرف ہندستان میں بلکہ پوری دنیامیں جانا جاتا ہے۔آپ نے موضوع کے تعلق سے فرمایاکہ محمدحسین آزاد،حالی اور شبلی ہمارے کلاسیکی ادب کے اُن ممتاز ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی نثرکے ذریعے پورے عہدکو متاثرکیا۔ حالی کی یادگارِ غالب، محمد حسین آزادکی آب حیات اورعلامہ شبلی نعمانی کی موازنۂ انیس و دبیریہ تینوں کتابیں ہماری ادبی تاریخ میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔
نائب صدر غالب انسٹی ٹیوٹ، پرویز علی احمد،جسٹس بدر دُرریزاحمد اورجسٹس آفتاب عالم کے دستِ مبارک سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی شائع کردہ نئی مطبوعات کلاسیکی ادب اور ترقی پسند تنقیدمرتبہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی ،مجاز،:حیات و خدمات،مرتبہ،ڈاکٹر رضاحیدر،گنجینۂ معنی کا طلسم،ڈاکٹر اسلم پرویز، غالب نامہ کے دونوں شمارے(جولائی۲۰۱۴،جنوری ۲۰۱۵) کے علاوہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی سال۲۰۱۵ء کی ڈائری،کلینڈر، اورسال بھر کی سرگرمیوں کے ایک کتابچہ کارسمِ اجراء بھی عمل میں آیا۔ 
آخر میں ادارے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدر نے تمام سامعین کااور مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔
سمینار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پرشانتی نکیتن سے تشریف لائی مشہور و معروف غزل سنگر محترمہ موسمی رائے نے نے غالب، رومی، جامعی اور فارسی کے شعرا کی غزلیں پیش کیں۔
سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں مشہورنقاد اور دانشور پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے صدارت کی۔ مہمانِ خصوصی کی حثییت سے پروفیسر ابنِ کنول شریک رہے۔ابوالکلام قاسمی نے حالی اورشبلی کے نظامِ نقد اور اُن کے تصور تنقید پرروشنی ڈالتے ہوئے اپنے صدارتی خطبہ میں کہاکہ اردو نثرکے سب سے اہم ستون حالی اورشبلی ہیں۔پروفیسرابنِ کنول نے حالی اور شبلی کی گراں قدر خدمات کااعتراف کیااس جلسہ میں تین مقالہ پڑھے گئے پہلامقالہ ڈاکٹر وسیم بیگم نے حالی کی حیات جاوید کاتنقیدی جائزہ کے عنوان سے پڑھا۔اسی عنوان کے تحت دوسرا مقالہ ڈاکٹر مظہری نے پیش کیا۔ اس جلسہ کا آخری مقالہ جناب شاہد ماہلی نے پیش کیا۔انہوں نے شبلی کی سیاسی بصیرت کے عنوان سے شبلی کی سیاسی بصیرت پر روشنی ڈالی۔ اس جلسہ کی نظامت نورین علی حق نے کی۔ چائے کے وقفے کے بعد دوسرا اجلاس جناب شاہدمہدی کی صدارت میں منعقد ہوااس جلسہ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے پاکستان سے تشریف لائے معروف شاعر اور نقاد پروفیسر اصغر ندیم نے شرکت کی۔ اس جلسہ میں چار مقالہ پیش کیے گئے۔ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے ایک منفرد موضوع حالی کا تصور تاریخ پیش کیا۔انہوں نے حالی کے تصور تاریخ پرگفتگو کرتے ہوئے تاریخ کے متن کوایک بیانیہ کے طورپر دیکھنے کی کوشش کی۔دوسرا مقالہ ڈاکٹرسیدتقی عابدی کا تھاانہوں نے آزاد،حالی اور شبلی کی نثری خدمات کا جائزہ لیا۔پروفیسر قاضی جمال حسین نے شبلی کی نظامِ نقد کابھرپور جائزہ پیش کیا۔ انہو ں نے اس بات پر زوردیاکہ شبلی مغرب سے مرعوب نہ تھے بلکہ انہوں نے مغرب کے مقابلے میں مشرقی شعریات کو اہم جانا۔پروفیسر عتیق اللہ صاحب نے مغربی سیاق میں شبلی کے نظام نقد کا جائزہ پیش کیا۔ سمینار کے دوسرے دن کاتیسرا اجلاس معروف فکشن نگارجناب انتظارحسین صاحب کی صدارت میں شروع ہوا۔ اس جلسہ میں ڈاکٹر اطہرفاروقی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس جلسہ میں تین مقالہ پیش کیے گئے۔ انتظار حسین نے اپنی صدارتی تقریر میں اس بات کی شکایت کی کہ سمینارکے تمام مقالے صرف حالی اور شبلی پر مرکوز ہیں اس میں محمدحسین آزاد کاذکر نہیں آیا۔ حالانکہ یہ سمینار آزاد،حالی اور شبلی کی تثلیث پرقائم کی۔ اس لیے آزاد کاذکر ضروری ہے۔چائے کے وقفے کے بعدآخری اجلاس شروع ہوا۔اس جلسہ میں پروفیسرخالدمحمودمہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ پروفیسر زماں آزردہ نے صدارت کے فرائض انجام دیے۔ ڈاکٹر احمدامتیاز،ڈاکٹر یوسف عامر اورایلین ڈیسولیئرنے مقالے پیش کیے۔نظامت محترمہ سفینہ بیگم نے کی۔گذشتہ سال کی طرح امسال بھی۲۰ دسمبر۲۰۱۴ شام سات بجے بین الاقوامی غالب تقریبات کے موقع غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام عالمی مشاعرہ کاانعقاد ایوانِ غالب میں کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت کینڈا سے تشریف لائے ڈاکٹرسیدتقی عابدی نے انجام دی۔ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر سراج اجملی نے انجام دیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سیدرضاحیدرنے اپنی افتتاحی تقریر میں اس مشاعرے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کایہ مشاعرہ ہندستان کے تمام مشاعروں سے اس لیے منفرد ہے کہ ہم اس مشاعرے میں اُن ہی شعراکو مدعو کرتے ہیں جن کے کلام ملک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں اوراِن شعراء کے کلام کو علمی و ادبی دنیا میں عزت کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ 
بین الاقوامی غالب سمینارکے تیسرے دن کے پہلے اجلاس کاانعقاد پروفیسر صادق کی صدارت میں صبح دس بجے شروع ہوا۔اس جلسہ میں چارمقالہ پڑھے گئے۔پہلا مقالہ معید رشیدی کاتھا،ڈاکٹر نورفاطمہ اورڈاکٹر شمس بدایونی کے علاوہ اس جلسہ میں پاکستان سے تشریف لائے معروف فکشن نگارجناب انتظارحسین نے آزاد،حالی اور شبلی کے حوالے سے نہایت اہم مقالہ پیش کیا۔اس جلسہ کی نظامت ڈاکٹر جاوید رحمانی نے کی۔دوسرا اجلاس پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی صدارت میں شروع ہوا۔اس جلسہ میں جناب انتظارحسین مہمانِ خصوصی کے طورپر شامل ہوئے۔آخری دن کے دوسرے جلسہ میں چار مقالے پیش کیے گئے،ڈاکٹر علی جاوید کے علاوہ پروفیسر انیس اشفاق نے موازنہ کاقضیہ،ڈاکٹر اصغرندیم سید نے حالی کے تنقیدی امتیازات پر روشنی ڈالی۔پروفیسر قاضی افضال حسین نے حالی کے تنقیدی افکارکاجائزہ پیش کیا۔ لنچ کے وقفہ کے بعد تیسرا اجلاس پاکستان سے تشریف لائے معروف اسکالر ڈاکٹر اصغرندیم سید کی صدارت میں دوپہردوبجے شروع ہوا۔اس جلسہ میں پانچ مقالے پڑھے گئے۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی،قاضی عبیدالرحمن ہاشمی، پروفیسر انورپاشااورڈاکٹر خلیق انجم نے جدیداردو نثر کے معمار آزاد،حالی اور شبلی کے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لیا۔پروفیسر مظہرمہدی نے آزادکوانگریزی مشین کے ایک پُرزے کے طورپر دیکھنے کی کوشش کی۔اختتامی جلسہ میں پاکستان سے تشریف لائے جناب انتظارحسین،ڈاکٹر اصغر ندیم سیداور مصرسے تشریف لائے ڈاکٹر یوسف عامر نے سمینار کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اور غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی کاوشوں کوسراہااوریہاں کے اراکین ادارہ کوسمینار کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔ اختتامی جلسہ کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے انجام دی۔ اورمہمانِ خصوصی کی حیثیت سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے شرکت کی۔اس جلسہ کی نظامت غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدرنے انجام دی۔ اورجناب شاہد ماہلی نے تمام شرکاکا شکریہ ادا کیا۔آخری جلسہ میں سمینار میں تشریف لائے تمام اسکالرس اورہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے تشریف لائے اور طلبا اور طالبات کی خدمت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی مطبوعات پیش کی گئیں۔ غالب تقریبات کے اختتام پر ہم سب ڈرامہ گروپ(غالب انسٹی ٹیوٹ) اوربہروپ آرٹس گروپ کی طرف سے کرخواجہ احمدعباس کا تحریر کردہ اُردو ڈرامہ ’’اجنتا کی طرف‘‘پیش کیا گیا،،جس کی ہدایت کے فرائض جناب اروند آلوک انجام دیے۔

غالب انسٹی ٹیوٹ میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد

گذشتہ سال کی طرح امسال بھی ۲۰ دسمبر۲۰۱۴ شام سات بجے بین الاقوامی غالب تقریبات کے موقع پرغالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام عالمی مشاعرہ کاانعقاد ایوانِ غالب میں کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت کینڈا کے ممتاز ادیب و دانشور ڈاکٹر سید تقی عابدی نے انجام دی۔اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے ملک کے اہم شاعر اور اس سال کے غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے شاعری کے غالب انعام یافتہ شاعرمضطرمجاز موجود تھے۔ نظامت کا فریضہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی شعبۂ اردو کے سینئر استاد ڈاکٹر سراج اجملی نے انجام دیا۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سیدرضاحیدرنے اپنی افتتاحی تقریر میں اس مشاعرے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کایہ مشاعرہ
ہندستان کے تمام مشاعروں سے اس لیے منفرد ہے کہ ہم اس مشاعرے میں اُن ہی شعراکو مدعو کرتے ہیں جن کے کلام ملک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں اوراِن شعراء کے کلام کو علمی و ادبی دنیا میں عزت کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پیش ہیں کچھ شعرا کرام کے منتخب کلام:
گذرجاتی ہے ساری زندگی جن کے تعاقب میں
بگولے ہیں کسی بھی خواب کی صورت نہیں ہوتی
عذرا نقوی
کس کی تعریف کریں، کس کے قصیدے لکھیں
نفسِ مضمون سے بڑھ کر ہیں حوالے اچھے
مہتاب حیدر نقوی
سجدوں کو کیا رسم و تکلف
کیا جادہ سجادہ پرسی
نسیم عباس
میری قسمت کا ستارا ہے چمکنے والا
میرے بارے میں ووٹر کاخیال اچھا ہے
اس بھروسے پہ الیکشن میں کھڑا ہوں میں بھی
اک نجومی نے کہا کہ یہ سال اچھا ہے
اعجاز پاپولر
آہستہ آہستہ ایسا وقت بھی آئے گا
جب روشن سورج کا تعارف دیا کرائے گا
مضطر مجاز
نظر بت تراشوں کی جن کو ملی ہے
چٹانوں کے اندر صنم دیکھتے ہیں
تقی عابدی
خود سے ملنے کی بھی جستجو کیجئے
دل جو تنہا ملے گفتگو کیجئے
اسد رضا
وہ برگ و بار اُگائے ہیں ہم نے گلشن میں
مسل بھی جائیں تو اِن سے حِنا نکلتی ہے
ڈاکٹر ناشِر نقوی
کہاں کا پیڑ، نہیں پھوٹی کوئی کونپل بھی
ہزاروں آرزوئیں دل میں بوچکیں آنکھیں
ڈاکٹر ظفر مراد آبادی
عبارتیں تیرے چہرے کی یوں بھی ہیں ازبر
کہ اس کتاب کو میں نے پڑھا زیادہ ہے
وقار مانوی
عزم و ایثار و وفا کا جو ہنرجانتے ہیں
بس وہی قافلے آدابِ سفر جانتے ہیں
قیصر اعظمی
میں چاہ کر بھی ترے ساتھ چل نہیں سکتا
اے نسلِ نو تری رفتار کچھ زیادہ ہے
اقبال اشہر
بس ایک بار ترا عکس جھلملایا تھا
پھر اس کے بعد مرا جسم تھا نہ سایہ تھا
راشد انور راشد
اُدھر کے رُخ سے جو دیکھ آئے سو دیکھ آئے
اِدھر سے دیکھو کچھ اور منظر دکھائی دے گا
راشد جمال فاروقی
مزا نہ آیا کہانی میں کچھ ہمارے بغیر
جہاں کٹے تھے وہیں پھر رقم کئے گئے ہم
شکیل اعظمی
راہ و رسم اس کی امیرالبحر سے کیا خاک تھی
پیاس سے بے تاب اب پھرتا ہے دریا آشنا
سراج اجملی
میں اُس کی بزم ناز میں ہوکر بھی آگیا
الجھا رہا زمانہ ثواب و عذاب میں
افضل منگلوری
بدل گئے ہیں تقاضے حیات کے پھر بھی
کسی سے پیار ہمیں اب بھی آہ کتنا ہے
شاہد ماہلی
جناب شاہد ماہلی کے اظہارِ تشکّر کے ساتھ مشاعرہ کااختتام ہوا۔
۔۔۔۔











Wednesday, November 26, 2014

ڈاکٹرمحمدسہیل عمرکاغالب انسٹی ٹیوٹ میں اقبال پر خطبہ

ممتازماہر اقبالیات اور اقبال اکیڈمی،لاہور پاکستان کے ڈائرکٹر ڈاکٹرمحمدسہیل عمرنے ’’مطالعات اقبال کی نئی جہتیں ‘‘کے موضوع پر خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ
اقبال کے بارے میں جو تصورات بہت عام اور مشہور ہیں اُن میں اقبال کو ایک طرف فلسفی، مفکر اور مصلح قوم کے طورپر غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے لیکن اُن کی شاعرانہ حیثیت کو وہ مقام عموماً نہیں دیا جاتا جس کے وہ مستحق ہیں۔ آپ نے مزید فرمایاکہ اقبال کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی نے پچھلے چند برسوں میں جو سوالات اٹھائے ہیں اُن پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ انہو ں نے فاروقی صاحب کے حوالے سے اُن سوالات پر بھی تفصیلی گفتگوکی۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایاکہ ڈاکٹر محمد سہیل عمر کا آج کایہ خطبہ اِن معنو ں میں نہایت علمی ہے کہ آپ نے مطالعاتِ اقبال کے اُن پہلوؤں پر گفتگو کی جن سے ہم کم اشنا تھے۔ آپ نے مزید کہاکہ اقبال ہمارے اُن بڑے شعرامیں سے ہیں جنہیں ہم کسی ملک یا سرحد میں قید نہیں کرسکتے۔ اپنے کلام کی آفاقیت کی وجہ سے اقبال دنیا کے مقبول ترین شعرا میں سے ایک ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائر کٹرڈاکٹررضاحیدرنے ڈاکٹر محمد سہیل عمرکا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ آپ کا شمار اہم ماہر اقبالیات میں ہوتاہے۔آپ بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں خصوصاً اقبال پر لکھی ہوئی آپ کی کتابیں علمی دنیا میں احترام کی نظرو ں سے دیکھی جاتی ہیں، آپ کی نگرانی میں اقبال اکادمی نے کافی ترقی کی ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال اکادمی کا شمار برصغیر کے بڑے علمی اداروں میں ہوتاہے۔ پاکستان سفارت خانے کے فرسٹ سکریٹری سید ضرغام رضانے بھی اپنی گفتگو میں کہا کہ اردو زبان و ادب کے تعلق سے ہندستان میں جتنا اہم کام ہورہاہے اس کا ہم سبھی پاکستانی اعتراف کرتے ہیں۔ آخر میں شاہد ماہلی نے تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا۔اس موقع پرپروفیسر عبدالحق،ڈاکٹر محمد کاظم، ڈاکٹر خالد علوی، پروفیسر توقیر احمد خاں، ڈاکٹر احمد محفوط، محترمہ سفینہ، ڈاکٹر ادریس احمد،مسعود فاروقی، ڈاکٹر سہیل انور، یاسمین فاطمہ، عبدالواحد،محمد عمرکے علاوہ بڑی تعداد میں اہل علم موجود تھے۔

Monday, November 10, 2014

لیفٹنٹ گورنر جناب نجیب جنگ کی غالب انسٹی ٹیوٹ میں آمد

دلّی کے لیفٹنٹ گورنر عزت مآب جناب نجیب جنگ کی غالب انسٹی ٹیوٹ میں آمد پر ادارے کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، وائس چیرمین ڈاکٹر پرویز علی احمداور ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدرنے لیفٹنٹ گورنر کاپرتپاک استقبال کیا۔ اس موقع پر محترم لیفٹنٹ گورنر کی خدمت میں ادارے کی اہم مطوعات پیش کی گئیں۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور ڈاکٹر رضاحیدرنے لیفٹنٹ گورنر سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ ادارہ پچھلے۴۵برسوں سے غالب، معاصرین غالب، کلاسیکی ادب، ملک کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت پر بڑے اہم کام کررہاہے۔خصوصاً اس ادارے نے دلّی کی تاریخ و تہذیب پر بھی کئی اہم کتابیں شائع کی ہیں اور سمینار کا اہتمام کیا ہے۔ ادارے نے اب تک ۲۰۰ سے زیادہ قومی اور بین الاقوامی سمینار اور ۳۰۰سے زیادہ کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ محترم لیفٹنٹ گونر نے اپنے ۴۵منٹ کے سفرمیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے میوزیم، لائبریری، آڈیٹوریم اور نادر مخطوطات کو دیکھا۔ اپنے تاثرات میں لیفٹنٹ گورنر نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے علمی و ادبی کاموں کی بھرپور ستائش کی اور امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں یہ ادارہ نہ صرف غالبیات بلکہ اردو زبان و ادب اور دلّی کی تہذیب و تاریخ کے فروغ میں اہم کردار اَدا کرے گا۔
تصویر میں:کتابوں کا تحفہ دیتے ہوئے :سید رضاحیدر،عزت مآب نجیب جنگ،ڈاکٹر پرویز علی احمد،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی

Sunday, October 12, 2014

امیر خسرو سمینارکا ایوانِ غالب میں انعقاد

غالب انسٹی ٹیوٹ اور نیشنل امیر خسرو سوسائٹی کے زیراہتمام ’’امیر خسرو کی دلّی : تاریخی اور سماجی منظرنامہ‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سمینار کے افتتاحی اجلاس میں امیر خسرو سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر خلیق انجم نے اس سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایاکہ امیر خسرو ہماری علمی و ادبی تاریخ اتنے عظیم شاعر ہیں کہ جن پر بہت کم علمی کام ہواہے۔ امیر خسرو کے کلام کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ وہ ہندوستان سے بہت محبت کرتے تھے اور انہوں نے اس ملک کی تہذیب و ثقافت کو جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے خسرو سے متعلق اُن کتابوں کابھی ذکرکیاجو کتابیں تفہیم خسرو میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ معروف فارسی ادیب پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ خسرو جتنے ہندستان میں مقبول ہیں اتنے ہی زیادہ بیرونِ ہند میں مقبول ہیں۔ امیر خسرو آج بھی بیرون ملک میں ثقافتی سفیر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ خسر ونے دلی کی تاریخ اور دلی کی ثقافت کو اتنے وسیع پیمانے پر پیش کیاہے کہ آج ہم بغیر خسرو کے دلّی کی تاریخ کو نہیں سمجھ سکتے۔ آپ نے مزیدکہاکہ خسرو نے دلّی کی تاریخ کو محض شاعری کے پیرائے میں نہیں پیش کیاہے بلکہ وہ تمام باتیں حقیقت پر مبنی ہیں۔
اس جلسے کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ امیرخسرو ہمارے اُن بڑے شاعرو ں میں ہیں جن کاکلام آج بھی ہماری علمی رہنمائی کررہاہے۔ غالب بھی خسرو کے چشمۂ فکر سے مسلسل فیض یاب ہوتے رہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم آنے والے دنوں میں امیر خسرو پر بڑے جلسے منعقد کریں گے تاکہ آج کے دور میں ہم خسرو کوصحیح طریقے سے روشناس کراسکیں۔ ایران کلچر ہاؤس کے کلچرل کاؤنسلر علی فولادی جو اس جلسے میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے آپ نے فرمایاکہ خسرو کے کلام کو ایران میں کافی پڑھا جاتاہے اور خسرو کو اتنی ہی عزت دی جاتی ہے جتنی ایرانی شعراکو، آپ نے امیر خسرو کو قومی یکجہتی کا علمبردار اور انسانیت کا امین بتایا۔ نیشنل امیر خسرو سوسائٹی کے جنرل سکریٹری شاہد ماہلی نے امیر خسرو سوسائٹی کی تاریخ کو پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ سوسائٹی پچھلے کئی برسوں سے کافی اہم کام انجام دے رہی ہے۔ کئی بڑے لوگ اس سوسائٹی سے وابستہ تھے اور انہو ں نے کافی اہم کام کیاے۔ آنے والے دنو ں میں ہم بھی اس سوسائٹی کے ذریعے امیر خسرو پر کئی علمی کام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضاحیدر نے اپنی ابتدائی گفتگو میں کہاکہ خسرو کی دلّی کی تاریخ اور دلّی کے سماجی منظرنامے سے اتنی وابستگی تھی کہ ہم خسرو کو دلّی کے بغیر اور دلّی کو خسرو کے بغیر تصور ہی نہیں کرسکتے ہیں۔ افتتاحی جلسے کے بعد ملک کے معروف کلاسیکی سنگر استاد اقبال احمد خاں نے کلام خسرو اپنی خوبصورت آواز میں پیش کیا۔ اس جلسے میں بڑی تعداد میں اہل علم ، ادبا اور اسکالرز موجود تھے۔
سمینار کے دوسرے دن امیر خسرو کی زندگی، شاعری اور عہدِ خسرو کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ پر دلّی اور بیرونِ دلّی کے علماء نے اپنے پُرمغز مقالات پیش کئے۔دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی اور پروفیسر علی احمد فاطمی نے کی، اس اجلاس میں ڈاکٹر قمر عالم، پردیب خسرو، ڈاکٹر نکہت فاطمہ، ڈاکٹر علیم اشرف، ڈاکٹر احسن الظفر اور پروفیسر عبدالقادرجعفری نے مقالات پیش کئے۔ اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دیا۔
دوسرے اجلاس میں پروفیسر چندرشیکھر، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر علی احمدفاطمی، ڈاکٹرسرفراز احمد خان، ڈاکٹر عمیر منظر اور پروفیسر صادق نے خسرو کی تصانیف اور عہد خسرو کی دلّی کے ہر پہلو پر اپنے خیالات کا اظہارکا۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور پروفیسر عبدالقادر جعفری نے کی اور نظامت کے لئے ڈاکٹر احتشام الدین کو زحمت دی گئی۔ سمینار کا آخری اجلاس پروفیسر صادق اور پروفیسر چندرشیکھر کی صدارت میں ہوااور اس اجلاس میں ڈاکٹر فوزیہ وحید، ڈاکٹرارشاد نیازی، ڈاکٹر احتشام الدین، ڈاکٹرسکینہ اور ڈاکٹر رفاق احمدنے مقالات پیش کئے۔ نظامت ڈاکٹر سرفراز احمد خاں کی تھی۔ اِن تینوں اجلاس میں خسرو نے دہلی کے بارے میں جو اطلاعات اپنے مختلف آثار میں فراہم کی ہیں، ان کے بارے میں تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔ خسرو نے اپنے دور تک دہلی کی سیاسی، ثقافتی اور ادبی تاریخ کو بڑی توجہ سے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ یہ تمام ہی موضوعات سمینار کے مختلف مقالات میں بحث کا موضوع بنے۔مقالات کے بعد جوبحث و مباحثہ ہوا، اس کی وجہ سے یہ موضوعات زیادہ وضاحت سے روشنی میں آئے۔آخر میں نیشنل امیر خسرو کے جنرل سکریٹری شاہد ماہلی نے تمام سامعین اور مقالہ نگار حضرات کافرداً فرداب شکریہ ادا کیا۔اس سمینار میں بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔

Wednesday, October 8, 2014

بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے 
بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار۲۶،۲۷،۲۸ستمبر کو ایوانِ غالب میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک و بیرون ملک کی مختلف دانشگاہوں سے اسکالرز نے شرکت کی۔ سمینار کا افتتاح جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے کیا۔ پروفیسر طلعت احمد نے افتتاحی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کسی بھی قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پڑھے اور سمجھے تاکہ اس کاتحفظ اور وقار بلند و بالا ہو۔ ریسرچ اسکالرز کو محنت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیاری تحقیق ممکن ہو۔اگر وہ ابھی محنت کریں گے تو آگے چل کرایک بہترادیب کی صف میں ان کا شمار ہوسکے گا۔اس موقع پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ آج ہم ان سے مخاطب ہیں جو اردو زبان و ادب کے مستقبل ہیں۔ اردو کے نئے امکانات انہیں اسکالروں سے وابستہ ہیں۔یہی نوجوان اردو اداروں کے اساتذہ اور افسران ہوں گے۔ ریسرچ اسکالرز سمینار غالب انسٹی ٹیوٹ کی شناخت بن چکا ہے اورقومی کونسل کی بھی مستقل یہی کوشش ہے کہ دیگر اداروں کے اشتراک سے اہم سمینار اور پروگرام منعقد کراتا رہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدر نے دوران نظامت گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ گزشتہ چالیس برسوں سے غالب،عہدِ غالب اور معاصرین غالب کے حوالے سے کارہائے نمایاں انجام دیتا رہا ہے۔ تقریباً سوسمیناراورتین سو کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ ریسرچ اسکالر سمیناراہمیت کاحامل ہوچکاہے اب ایک دن کے بجائے تین دنوں تک اسکالروں کو اپنے خیالات پیش کرنے کاموقع ملے گا۔ اس بین الاقوامی سمینار کا دائرہ وسیع ہونے کی واحد وجہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کاتعاون ہے۔ عہد حاضر کے ممتاز نقادپروفیسر عتیق اللہ نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہاکہ اسکالرسمینار کافی اہمیت و افادیت کاحامل ہے جس میں ہندستان کی اور بیرونِ ملک کی مختلف دانشگاہوں سے ریسرچ اسکالرز شرکت کرتے ہیں۔اساتذہ اورریسرچ اسکالروں کوسنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے،اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اسکالروں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انہیں موضوع دیں۔ ریسرچ اسکالروں کوفارسی بھی سیکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر سرمایہ فارسی میں محفوظ ہیں۔فارسی زبان و ادب کے معتبراسکالرپروفیسرشریف حسین قاسمی نے بھی کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہاکہ کچھ کام اساتذہ کو سنجیدگی سے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلبا کی تربیت ممکن ہوسکے۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ غیر معیاری تحقیقی کام کی اہم وجہ تربیت کا نہیں ہونا ہے۔ سمینار کے افتتاحی اجلاس میں موجودپاکستان کے کارگزارہائی کمشنر منصورعلی خاں نے کہاکہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کوخود سے کافی قریب محسوس کرتا ہوں کیونکہ یہ ادارہ اردو کے تئیں اہم کردار ادا کر رہاہے۔ آخرمیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ریسرچ اسکالروں میں سہل پسندی آگئی ہے جبکہ محنت و لگن کی ضرورت ہے۔ ادب بھی تنہا ادب نہیں رہ سکتااگر دیگر علوم سے فائدہ نہیں اٹھایا جائے۔ ریسرچ میں اپنے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سمینار کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریسرچ اسکالروں کویہ اختیار حاصل رہتا ہے کہ وہ اپنے مقالے ایم فِل یا پی ایچ ڈی کے موضوع کے حوالے سے ہی پیش کرسکتے ہیں۔ شاہد ماہلی نے اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہاکہ ریسرچ اسکالرز سمینار تمام اسکالرز کے لیے بہت مبارک ہے اس لیے کہ جس ریسرچ اسکالر نے یہا ں مقالہ پیش کیا آج وہ اردو کا بڑا ادیب ہے۔اس سمینار میں ہندستان کی اہم یونیورسٹیوں کے اردو اور فارسی ریسرچ اسکالرز کے علاوہ پاکستان کے بھی ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔ابوہریرہ، شیبا حیدر،ضیاء الرحمن، دھرم ویر وسنگھ،محمد آصف ملک، شاہنواز احمد اجے کمار، کہکشاں فلک،حیدر علی، محمد احتشام الحسن، رحمت یونس، رفعت مہدی رضوی، عزیز احمد، زیبا فاروقی، سعدالدین،محمد ایوب، جمیلہ بی بی، منہاج الدین، منت اللہ صدیقی، زبیر احمد، انو میاں،ایاز احمد، ارشد جمیل،محمد حذیفہ، عبدالرحیم،ذاکرحسین،سعدیہ جعفری،عبدالکریم،سفینہ، فاطمہ پروین،یاسر عباس،عرشِ منیر، شفیق انور،نغمہ نگار، علی ابراہیم آرزو، عندلیب عمر کے علاوہ پاکستان سے سعدیہ سرور،ارساکوکب اور صائمہ ارم نے مقالات پیش کیے۔ان تین دنوں میں صدارتی فریضہ کے لیے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،ڈاکٹر خلیق انجم، شاہد ماہلی،پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر علی احمد فاطمی،پروفیسر صادق، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر بلقیس فاطمہ حسینی، پروفیسر چندر شیکھر، ڈاکٹر خالد علوی،پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی، پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر ابنِ کنول، پروفیسر عبدالقادر جعفری، پروفیسر توقیر احمد خاں،پروفیسر ارتضیٰ کریم، ڈاکٹر شعیب رضا خاں، ڈاکٹر اطہر فاروقی،ڈاکٹر ثروت خان، پروفیسر انورپاشا، پروفیسر عین الحسن اور پروفیسر معین الدین جینابڈے موجود تھے۔اس سمینار میں ۹اجلاس منعقد ہوئے جس میں عبدالسمیع،محضر رضا، نوشاد منظر، رفعت مہدی رضوی،سفینہ، نورین علی حق،عینین علی حق،شاہنواز فیاض اورافسانہ حیات نے نظامت کا فریضہ انجام دیا۔ اختتامی اجلاس پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں پروفیسر ابن کنول،شاہد ماہلی،صائمہ ارم،ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کے علاوہ ڈاکٹر رضاحیدرنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس سمینار کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ ان تین دنوں میں ۶۰سے زیادہ ریسرچ اسکالرز نے بحث و مباحثہ میں حصہ لیا جن کوبطور خاص مدعو کیاگیا تھا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے سمینار میں تمام مقالہ نگاروں کوادارے کی اہم کتابوں کاتحفہ اورتمام ریسرچ اسکالرز کو سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔ اس سمینار میں دلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تقریباً ساڑھے تین سو ریسرچ اسکالرز کے علاوہ بڑی تعداد میں ایم۔اے کے طلبا و طالبات نے شرکت کی۔
اختتامی اجلاس کی تصویر میں دائیں سے: ڈاکٹر سیدرضاحیدر،پروفیسر محمد خواجہ محمد اکرام الدین، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،شاہد ماہلی اورڈاکٹر صائمہ ارم

Tuesday, September 2, 2014

ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی کتاب ’’مابعدنوآبادیات۔اردو کے تناظر میں‘‘پرایک مذاکرے کااہتمام

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہرِ یاراں کے موقع پرپاکستان کے ممتاز نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی کتاب ’’مابعدنوآبادیات۔اردو کے تناظر میں‘‘پرایک
مذاکرے کااہتمام کیاگیا۔ اس مذاکرے کی صدارت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ ناصر عباس نیّر اردو کے ایک اہم نقّاد ہیں، اُن کی اس اہم کتاب پر مذاکرے سے ہمیں اس لئے بھی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ اس کو پڑھ کر ہمیں مابعد نوآبادیاتی مسائل کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ آپ نے مزید فرمایاکہ یہ کتاب ہماری علمی دنیا میں اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ یہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اردو کی پہلی کتاب ہے۔
اس جلسے کے مہمانِ خصوصی پروفیسر شمیم حنفی نے اپنی گفتگو میں کہا نئے خیال کے بارے میں سوچنا نئی زندگی کا پتہ دینا ہے۔ آتش رفتہ کے سراغ نے ہمیں ذہنی بیماری کی صورت میں مبتلا کردیاہے۔ ۱۹ویں صدی اتنی پیچیدہ صدی ہے کہ اس سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا۔ ناصر عباس نیّر نے اپنی ادبی روایت کو جدید عناصرکی روشنی میں سب سے عمدہ طریقے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بہت غیر معمولی اور پختہ ذہن رکھنے والے اسکالر ہیں۔ ناصر عباس نیّر علمی شرائط اور تقاضوں کو کبھی نظرانداز نہیں کرتے۔اس کتاب کوپڑھے بغیر ہم آج کے آشوب کو نہیں سمجھ سکتے۔
پروفیسر شافع قدوائی نے کہاکہ مابعد نوآبادیات پر گفتگو کاآغازتو ناصرعباس نیّر نے نہیں کیا مگر سب سے سے زیادہ مضامین انہوں نے ہی لکھے ہیں۔ علم کاجوکھیل ہے دراصل وہ طاقت کا کھیل ہے فاتح قوم اپنی مفتوح قوم کے سامنے ثقافتی ایجنڈا پیش کرتی ہے۔ ناصر عباس نے ان تمام پہلوؤں پر گفتگو کی ہے۔ ناصر عباس نیّر نے آزاد اور سرسید کی تحریوں کا بہت سنجیدگی سے مطالعہ کیاہے۔
فرحت احساس نے فرمایاکہ اردو میں تنقیدی رجحانات کو جذب کرنے کے بجائے اگلنے کی کوشش عام رہی ہے ناصر عباس نیّر نے مغربی چیزوں کو اگلنے یا ہوبہو پیش کرنے کے بجائے شفافیت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جب کچھ لکھتے ہیں تو وہ ہرجگہ موجود رہتے ہی۔ وہ صرف مرکز میں ہی نہیں اس کے مضافات کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔
خالدعلوی نے ناصر عباس کی کتاب میں شامل مضامین پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ناصر عباس نیّرنے آزاد کے حوالے سے جو کچھ لکھاہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہو ں نے پہلی مرتبہ اس موضوع پر کچھ لکھنے کی کوشش کی اس لیے ناصر عباس نیّر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ساتھ ہی غالب انسٹی ٹیوٹ بھی قابل مبارک با دہے کہ اس نے اس کتاب پر مذاکرہ کا اہتمام کیا۔
ڈاکٹرسرورالہدی نے کہا کہ مابعد نوآبادیات کے بنیادی نکات پر ناصر عباس نیّر کی جیسی گہری نظرہے وہ اردو میں کہیں اور مشکل سے ملے گی اور اُن کے یہاں اس کی تفہیم میں کسی طرح کی جذباتیت نہیں ہے۔ عام طورپر لوگ مابعد نوبادیات کے سلسلے میں فیشن زدگی کے شکار ہیں اس ماحول میں ناصر عباس نیّر کی یہ کتاب اسکالرشپ اور احساس ذمہ داری کی ایک بڑی مثال ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے جلسہ کی نظامت کرتے ہوئے کتاب کا تعارف پیش کیا اور فرمایا کہ اردو میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں ۱۹ویں صدی کے اردو زبان و ادب کے اُن محرکات کو معروضی طریقے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے جن کا تعلق نوآبادیاتی ذہن سے ہے۔ اس جلسہ میں بڑی تعداد میں اہل علم موجود تھے۔

غالب انسٹی ٹیوٹ میں شامِ شہریاراں میں اقبال مرزا کو خراجِ عقیدت

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہرِ یاراں کے موقع پر لندن کااہم رسالہ ’’صدا‘‘ کے مدیر ڈاکٹر اقبال مرزاکی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک ادبی نشست کااہتمام کیاگیا، اس جلسے کی صدارت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ اقبال مرزارہتے تو لندن میں تھے مگر علمی اعتبار سے وہ ہمارے بے حد قریب تھے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے اُن کا گہرا رشتہ تھاوہ ادارے کے ہر بڑے جلسوں میں لندن سے تشریف لاتے تھے اور اور ہم اُن کے خیالات سے مستفید ہوتے تھے۔
شاہد ماہلی نے اپنی گفتگو میں کہاکہ اقبال مرزا لندن میں رہتے تھے مگر لندن میں رہ کر لکھنوی تہذیب کی وراثت کے امین بنے ہوئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور اُن کی ہر کتاب کوعلمی و ادبی دنیامیں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا گیا۔آج اقبال مرزا ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ہمیں پوری امیدکہ وہ اپنے علمی کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔
اس موقع پر پروفیسر صادق نے اپنی گفتگو میں فرمایاکہ اقبال مرزا اہم شاعر نہیں تھے، اہم ادیب بھی نہیں تھے تاہم ان کی شعرگوئی اور علمیت سے انکار ممکن نہیں۔ لندن سے ماہنامہ ’صدا‘ کی ادارت ان کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ یہ رسالہ تقریباً ۱۹برس تک پابندی کے ساتھ اپنے بل پر شایع کرتے رہے جس کی یورپ اور امریکہ میں بڑی پذیرائی ہوتی رہی۔
پروفیسر علی احمد فاطمی نے اُن کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ ایک اچھے ادیب،شاعراور نہایت ہی اچھے انسان تھے۔ وہ اپنے رسالے میں اپنے اداریوں کے ذریعے اپنے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی کرتے تھے۔ اسلامیات کابھی مطالعہ تھااور کئی اسلامی کتابوں کو انہوں نے ترتیب دیا۔آپ کے انتقال سے یورپ کی اردو دنیاکوبھی کافی نقصان پہنچا ہے۔
پروفیسر محمودالحسن صاحب نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اقبال مرزا کی زندگی سے وابستہ اتنی یادیں ہیں جن کو اگر لکھا جائے تو ایک کتاب تیار ہوجائے گی۔وہ لندن میں رہ کر لکھنؤ کی نمائندگی کرتے تھے۔ اور انہیں اپنی لکھنوی تہذیب پربڑا ناز تھا۔
ڈاکٹر وسیم راشد نے فرمایاکہ ڈاکٹر اقبال مرزانے لندن میں ایک بین الاقوامی سمینار میں مجھے مدعوکیاتھا، میں نے لندن پہنچ کر اس بات کامشاہدہ کیاکہ لندن میں اُن کی علمی حیثیت کتنی بلند تھی۔ وہ ایک بڑے ادیب کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی تھے۔
محترمہ نگار عظیم نے اُن کے رسالے ’صدا‘ کے تعلق سے کہاکہ اُن کے رسالے میں اچھے مضامین شائع ہوتے تھے اور انگلینڈ میں وہ رسالہ کافی مقبول تھا۔ ہندوستان کے ادیبوں کے بھی مضامین اُس میں شائع ہوتے تھے۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدرنے اپنی افتتاحی گفتگو میں فرمایاکہ لندن میں رہ کراپنے رسالے ’’صدا‘‘ کے ذریعے جولوگ پورے یورپ میں اردو زبان و ادب کو فروغ دے رہے ہیں اُن میں ایک اہم نام اقبال مرزا کاتھا، مرحوم کئی کتابوں کے مصنف تھے خصوصاً آپ نے صدا کا عالمی نمبر شائع کیاتھاجوکہ ہماری ادبی دنیامیں دستاویزکی حیثیت رکھتاہے۔اس جلسے میں بڑی تعداد میں اہل علم انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے موجود تھے۔

Tuesday, August 19, 2014

ڈاکٹراقبال مرزا کے انتقال پر غالب انسٹی ٹیو ٹ میں تعزیتی میٹنگ

معروف ادیب،شاعر،دانشور اور ماہنامہ ’صدا‘(لندن) کے مدیر ڈاکٹر اقبال مرزا کا ۱۸اگست کو لندن میں انتقال ہوگیاآپ کے انتقال سے پوری اردو دنیامیں زبردست سوگ کا ماحول برپا ہوگیاہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ میں جیسے ہی آپ کے انتقال کی خبرپہنچی فوراً ہی تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایاکہ اقبال مرزاکی وفات اردو دنیا کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔لندن میں رہ کر جس سنجیدگی سے آپ اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دے رہے تھے اُس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے آپ کا گہرا رشتہ تھاہر سال غالب انسٹی ٹیوٹ کے بین الاقوامی سمینار میں شرکت کرتے تھے اور ہم سبھی اُن کے افکارو خیالات سے مستفید ہوتے تھے۔ جناب شاہد ماہلی نے مرحوم سے اپنے دیرینہ روابط کاذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ جناب اقبال مرزاسے میرا تقریباً ۳۰ سال پرانا علمی و ادبی رشتہ تھا، وہ مجھے بے حد عزیز رکھتے تھے میں اُن کی میگزین کے مشاورتی بورڈ میں تھا۔ لندن جیسی جگہ میں رہ کراپنے رسالے کے ذریعے جس طرح سے اردو زبان و ادب کے تعلق سے وہ پورے یوروپ کی نمائندگی کررہے تھے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اُن کے انتقال سے مجھے ذاتی طورپر بے حد صدمہ پہنچا ہے مگر موت برحق ہے اور ہرشخص کو اُس کی گرفت میں آنا ہے، مرحوم اقبال مرزا اپنے علمی کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے بھی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اقبال مرزا ایک بڑے ادیب کے ساتھ ہردالعزیز اور اعلیٰ اخلاق کے حامل انسان تھے۔ وہ اپنے دوستوں اور چھوٹوں سے نہایت ہی محبت اور شفقت سے ملتے تھے۔ اپنی دانشوری سے ماہنامہ ’صدا‘ کو انہوں نے کافی بلندی تک پہنچایا۔ ہماری دعاہے کہ پروردگار عالم اُن کے درجات میں اضافہ کرے۔ اس تعزیتی جلسے میں خورشید عالم، اقبال مسعود فاروقی، ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، عبدالواحد،یاسمین فاطمہ،محمدعمر اور عبدالتوفیق کے علاوہ تمام اسٹاف نے شرکت کی اور رنجم و غم کا اظہار کیا۔

Monday, June 23, 2014

Sunday, June 15, 2014

مخطوطات کی اہمیت پر دو روزہ سمینارمنعقد

 غالب انسٹی ٹیوٹ اور رامپور رضالائبریری کے زیراہتمام ’’رامپور رضالائبریری اور غالب انسٹی ٹیوٹ میں موجود فارسی اور اُردو کے مخطوطات، تاریخ، ادب اور ثقافت کا مآخذ‘‘ کے موضوع پرمنعقدہونے والے سمینار کے افتتاحی اجلاس میں معروف فارسی اسکالراورانسٹی ٹیوٹ آف پرشین ریسرچ (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)کی ڈائرکٹرپروفیسرآذر میدُخت صفوی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے رام پور رضالائبریری اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے مخطوطات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ان دونوں لائبریریوں میں رکھے ہوئے مخطوطات ہماری علمی،ادبی ،تہذیبی اور تاریخی زندگی کانہایت قیمتی سرمایہ ہے۔ خصوصاً انہوں نے رضا لائبریری کے مخطوطات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں رکھے ہوئے مخطوطات اتنے نادر اور نایاب ہیں کہ اس کی مثال دنیا کے کسی خطے کی لائبریری میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔آپ نے یہ بھی فرمایاکہ مخطوطات کی کیٹلاگ سازی کابھی پورا خیال رکھنا چاہیے۔ اور مجھے پوری امید ہے کہ مخطوطات کی افادیت پر ہونے والے اس سمینار کے اختتام کے بعد ہم اس نتیجے پر ضرورپہنچیں گے جو ہماری علمی دنیا میں کافی سودمند ثابت ہوں گے۔پروفیسر صفوی نے اپنی تقریر میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور رضالائبریری کی تاریخی حیثیت پر بھی گفتگو کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ دونوں ادارے اپنی شاندارعمارتوں کے ساتھ ساتھ اہم علمی و ادبی امور بھی انجام دے رہے ہیں ۔ رام پور رضا لائبریری کے ڈائرکٹر پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین نے اپنی افتتاحی تقریر میں رضالائبریری رام پور کے مخطوطات کی اہمیت پرگفتگو کرتے ہوئے فرمایاکہ رضا لائبریری رام پور میں موجود بیشتر مخطوطات ایسے ہیں جن کاپوری دنیامیں کوئی دوسرا نسخہ موجود نہیں ہے۔یہاں عربی،فارسی، اردو،پشتو،سنسکرت، ترکی اوردیگر زبانو ں کے تقریباً ۱۷ ہزار مخطوطات ہیں جو اپنے سرمایہ کے اعتبار سے پورے برصغیر میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین نے رام پور رضالائبریری کے شائع ہوئے مخطوطات پرتبصرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ یہاں کے بیشترمخطوطات کتابی شکل میں شائع ہوکر علمی دنیامیں کافی مقبول ہو رہے ہیں۔تاریخ فیروزشاہی اوررامائن کے ترجمہ کابھی آپ نے خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی خطبہ میں اپنی نوعیت کے اعتبار اس منفرد سمینار پر خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یقیناًیہ سمینارطلبا ،ریسرچ اسکالر،اساتذہ اور اہل علم کے لیے کافی معاون ثابت ہوگا۔آپ نے یہ بھی فرمایاکہ آج بھی ہمارے ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں ،قصبات اوردیہات کے بیشتر گھروں میں اردو اور فارسی کی ایسی چیزیں مل جائیں گی جوہماری علمی زندگی میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں مگر وقت اور حالات کی وجہ سے ان پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر ہم نے اپنے اس قیمتی ورثہ کو سنبھال کر نہ رکھاتو ہم اپنی شاندار تاریخ سے محروم ہوجائیں گے۔مشہور ماہر تعلیم اورنیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کے پروفیسر سید عرفان حبیب جو اس سمینار میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے انہوں نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیاکہ آج بھی اس ملک میں مخطوطات کا اتنا عظیم سرمایہ موجود ہے کہ جتنا اہم اور معتبر سرمایہ دنیا کے کسی ملک میں کم ہی ہے۔آپ نے یہ بھی فرمایاکہ آ ج بھی ہندستان کی بے شمار ایسی لائبریری اور ادارے موجود ہیں جہاں مخطوطات کا اہم ذخیرہ ہے مگر بے توجہی کی وجہ سے وہ تمام ذخائرتباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ذاتی ذخیرہ بھی لوگوں کے پاس کافی موجود ہیں مگر وہ تمام ذخائر انتہائی خراب حالت میں ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرڈاکٹررضاحیدر نے اپنی گفتگو میں فرمایاکہ مخطوطات ہماری علمی ادبی، تہذیبی اور تاریخی وراثت کا اتنا عظیم سرمایہ ہے کہ اگر ہم نے ان پر توجہ نہیں دی توہم ماضی سے کٹ جائیں گے اور ہماری شناخت ختم ہوجائے گی۔آج پوری دنیامیں مخطوطات کے تحفظ پر انقلابی سطح پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے اوراس ملک میں سرکاربھی اس کے تحفظ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔آپ نے اس بات پر افسوس کااظہارکیاکہ ماضی میں ہماری بے توجہی کی وجہ سے ہمارے ملک کی اہم لائبریریوں اور اداروں کے مخطوطات بیرونِ ملک کی لائبریریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر رضاخیدر نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے مخطوطات کاتعارف کراتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ میں رکھے ہوئے مخطوطات علمی اعتبار سے کافی اہم ہیں اور ان پروقتاً فوقتاً تحقیق ہونے کی ضرورت ہے۔اس موقع پرشاہد ماہلی نے بھی مخطوطات کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ مخطوطات کے تحفظ پر اگر ہم نے توجہ نہیں دی تو یہ تمام سرمایہ ہماری علمی اور تہذیبی زندگی سے ختم ہوجائیں گے۔ افتتاحی کے اجلاس کے بعد دو اور اجلاس ہوئے جس میں پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر ریحانہ خاتون، پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر نسیم احمد نے صدارتی فریضہ کو انجام دیا اور ڈاکٹر کلیم اصغر، ڈاکٹر اخلاق احمد آہن ، جناب شاہد ماہلی ،ڈاکٹر ارشاد ندوی، محترمہ پریتی اگروال اور سیدنوید قیصرشاہ نے مقالات پیش کیے۔ ان دونوں اجلاس کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر کلیم اصغر اورسید نوید قیصر شاہ نے انجام دیا۔ 

سمینار کے دوسرے دن اردو وفارسی کے اہم اسکالرز نے رضالائبریری رامپوراور غالب انسٹی ٹیوٹ میں موجود مخطوطات کی اہمیت و افادیت پر اہم گفتگو کی۔ دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں ڈاکٹرقمر عالم،ڈاکٹر احتشام الدین،پروفیسر حسن عباس، ڈاکٹر شمس بدایونی، پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر ریحانہ خاتون، پروفیسر چندر شیکھر،پروفیسر شریف حسین قاسمی نے رامپور رضالائبریری اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے اُن اہم مخطوطات پر گفتگو کی جو ہماری علمی، ادبی، تہذیبی اور تاریخی وراثت کااہم مآخذ ہیں۔ خصوصاً پروفیسر چندر شیکھر، پروفیسر عراق رضا زیدی اور پروفیسر شریف حسین قاسمی نے اپنی عالمانہ گفتگو میں اس بات پرزور دیاکہ اگر ہم نے اپنے اس قیمتی ورثے کی حفاظت نہیں کی تو ہم اپنی شاندار تہذیب و راثت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں گے۔اس اجلاس کی صدارت پروفیسر آذر میدُخت صفوی اور پروفیسر سیدمحمد عزیز الدین حسین نے کی اور نظامت کافریضہ ڈاکٹر شعیب رضا خاں نے انجام دیا۔سمینار کے آخری اجلاس میں ہیمنت شکلا، محترمہ ساجدہ شیروانی، ڈاکٹر تبسم صابر، ڈاکٹر مشتاق تجاروی، ڈاکٹر وسیم بیگم اور پروفیسر نسیم احمد نے مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ڈاکٹر وسیم نے۴۰۰صفحات پر مشتمل غالب انسٹی ٹیوٹ سے شائع ’’دیوانِ عارف‘‘ کا جائزہ لیا جسے آپ نے خود ترتیب دیاہے۔اس اجلاس میں ڈاکٹر شمس بدایونی، پروفیسر حسن عباس اور پروفیسر 
چندرشیکھر نے صدارتی فریضے کو انجام دیااور نظامت ڈاکٹر سہیل انورنے کی۔
ان تمام مقالات میں اسکالرز کابنیادی مقصد یہ رہاکہ وہ جہاں ان دونوں علمی مراکز کے امتیازی قلمی نسخوں کا تعارف کرائیں وہاں ان کے مطالب و مشمولات کی سماجی، تہذیبی اور تاریخی اہمیت و مناسبت پر روشنی بھی ڈالی۔ ان مقالات پر بحث و مباحثہ بھی ہواجس سے یہ نتیجہ نکلاکہ یہ علمی و ادبی و تاریخی مآخذ خاص طورپر ہمارے قرون وسطی کی زندگی کے ہر پہلو کو روشن کرنے کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ ہمارے ادب کی گوناگونیت اور اس کا تنوع اور سارے ہندستان میں اس کے رواج و اثرات پربھی گفتگو ہوئی۔ بعض ایسی کتابوں کا بھی اسکالرز نے اپنے مضامین میں ذکرکیاجن میں ہماری سماجی رسموں کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ان دو دنوں میں دہلی اور بیرونِ دہلی کے ریسرچ اسکالرز، اساتذہ کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اہم افراد نے شرکت کی اس اہم سمینار میں پاکستانی سفارت خانے کے چنداہم سفارت کاربھی موجود تھے اوردونوں دن اردو فارسی و تاریخ کے علما وفضلاکی عالمانہ گفتگو سے مستفید ہوئے۔ سمینار کا اختتام رضالائبریری کے ڈائرکٹر پروفیسر سید محمد عزیز 
الدین اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرکے اظہار تشکر سے ہوا۔







Saturday, May 24, 2014

غالب انسٹی ٹیوٹ میں فخرالدین علی احمدمیموریل لکچرکاانعقاد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ۲۴ مئی کو ’’ہندستان کی قومی تحریک کی تاریخ پرمختلف نظریات‘‘کے موضوع پرفخرالدین علی احمدمیموریل لکچرمنعقد کیا گیا۔ اس موقع پر ممتاز مؤرخ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریٹس عرفان حبیب نے فرمایاکہ قومی تحریک ہندستان کی اہم تحریکوں میں سے ایک ہے اور اس تحریک کی اہمیت کوکبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قومی تحریک کے بارے میں مؤرخوں کے درمیان جو موضوعات ہیں ان پر بحث کی جانی چاہیے، ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی ابتدا کے بعد قومی تحریک کے مخالفین میں کیا تصور تھااوراب قومی تحریک کاکیا نظریہ ہونا چاہیے اس پر خاطر خواہ روشنی ڈالی جانی چاہیے۔آپ نے مزید کہاکہ روشن خیال لوگوں کی نظر میںیہ تحریک اصلاحی تحریک تصور کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں آپ نے گاندھی جی اور مختلف مفکرین کے نقطۂ نظر پر بھی مختصراً روشنی ڈالی۔ قومی تحریک کی افادیت کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ تحریک ایک مشن تھی جوسرمایہ داروں کے تصور کی نفی کرتی ہے اور کسانوں اور مزدوروں کو اس کااپناحق دلانے کی تائید کرتی ہے۔ بعض مؤرخوں کے نقطۂ نظر کاحوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہاکہ اس تحریک نے دو قومی نظریہ کی بھی نقطہ چینی کی تھی۔ برٹش رول ان انڈیا۱۹۳۴ء میں اربندوگھوش کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ہندستان کے لوگوں کااصول تشدد نہیں ہے بلکہ شکتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے بعض سخت گیر تنظیموں نے ہندستان کے بجائے ہندوستھان کانعرہ دیا جس نے قومی تحریک کے مشن کونقصان پہنچایا۔پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے اختتامی کلمات میں یہ بھی کہاکہ موجودہ دورمیں قومی تحریک کوسمجھنے اور سمجھانے کی بیحد ضرورت ہے۔اگرہم نے قومی تحریک کے اصول و نظریات سے لوگوں کو واقف نہ کرایاتویہ تحریک بھی دم توڑ دے گی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے افتاحی کلمات میں کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیاں بہت محدود تھیں لیکن اب اس کے موضوعات کو وسیع کیاگیا۔ مختلف نظریات،پہلوؤں اور روایتوں کے موضوعات پرلکچر کرایا جاچکاہے اور کرایا جارہاہے۔ پروفیسر عرفان حبیب کاذکر کرتے ہوئے آپ نے کہاکہ پروفیسر عرفان حبیب کی کی تحریریں، اور تقریریں اتنی اہم ہیں کہ اور ان سے ہندستان اوردیگر ممالک کے اسکالرز استفادہ کرتے ہیں اورآپ اپنے عہد کی تاریخ کو بہت خلوص کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اپنی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر پرویز علی احمد،وائس چیئرمین،غالب انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ پروفیسر عرفان حبیب کے اس لکچر سے موجودہ صورت حال اور قومی تحریک کو سمجھنے میں ضرورمددملے گی۔پروفیسر عرفان حبیب کی دانشوری کاذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر پرویز نے مزید کہاکہ آپ کے اہم لکچرز ملک اوربیرونِ ملک میں بھی بڑے قدر کی نگاہوں سے پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدر نے نظامت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ فخرالدین احمد لکچرغالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کاایک اہم حصہ ہے۔اس موقع پرملک کے اہم دانشوروں اورمؤرخوں نے اپنے خیالات کااظہارکیاہے۔اور آج پروفیسر عرفان حبیب کی موجودگی نے اس لکچر کے وقار میں اضافہ کیاہے۔اس لکچر میں دہلی ہائی کورٹ کے جج اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی جسٹس بدر دُرریزاحمدکے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ،جواہر لعل نہرو،دلی یونیورسٹی،اوردلی یونیورسٹی کے کالجوں کے اردو ،فارسی اورتاریخ کے اساتذہ،اسکالرز اورطلبا کے علاوہ وکلاء،دہلی ہائی کورٹ کے ججز اور مختلف علوم و فنون کے افراد کثیر تعداد میں موجود تھے۔  
تصویر میں دائیں سے: ڈاکٹر رضاحیدر، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر عرفان حبیب، ڈاکٹر پرویز علی احمد، جسٹس بدر دُرریزاحمد











Wednesday, May 7, 2014

پروفیسرشمس الرحمن فاروقی کا غالب توسیعی خطبہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ۶ مئی کو ’’غالب توسیعی خطبہ‘‘ کے موقع پر ممتازادیب و دانشوراور ماہرِ غالبیات پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے
’’غالب کے غیر متداول دیوان‘‘ کے موضوع پر خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ غالب کا غیر متداول دیوان ایک عرصے سے لوگوں کی توجہ کا اس طرح مرکز نہیں ہے جیسے اُسے ہونا چاہئے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے یہ سوالات بھی اٹھائے کہ غیر متداول دیوان میں جو کلام موجود ہے اور جس کے بارے میں غالب نے یہ لکھاہے کہ انہو ں نے اس کلام کو مسترد کردیاتھاوہ مسترد کلام اصلاً کس کا رد کیاہواہے۔ آپ نے مزید فرمایاکہ یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ غالب نے اپنی عمرکے آخری حصّے میں مشکل گوئی ترک کردی اور میرکا انداز اختیار کرلیایہ بات بھی سراسر غلط ہے کیونکہ غالب کا تمام معروف اور مشہورکلام اُن کے ابتدائی زمانے کا کہاہوا ہے۔اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر شمس الرحمن فار وقی کااستقبال کرتے ہوئے کہاکہ آپ اس عہدکے بڑے ماہرِ غالبیات میں سے ہیں۔ غالب پر آپ نے جو کچھ تحریر کیااُسے علمی و ادبی حلقوں میں کافی پسند کیاگیا۔ آپ کی کتاب’’تفہیم غالب‘‘ غالب فہمی میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے یہ بھی فرمایاکہ ’’غالب کے غیر متداول دیوان‘‘ پر آپ کی جوبھی گفتگو ہوئی اُس سے یقیناًغالب تحقیق و تنقید میں ایک اہم اضافہ ہوگا۔ جلسے کی صدارت کرتے ہوئے معروف غالب شناس ڈاکٹر خلیق انجم نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے عالمانہ خطبے پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ غالب کے غیر متداول دیوان کے تعلق سے اردو اور فارسی کے ادیبوں کے ذہنوں میں شک و شبہات اور غلط فہمیاں ہیں آپ کے اس خطبے کے بعد ختم ہوجائیں گی۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے علمی و ادبی مرتبے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ اردو زبان و ادب خصوصاً غالبیات کے حوالے سے آپ کی کاوشوں کو اردو دنیامیں ہمیشہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھاجائے گا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب توسیعی خطبہ کی تاریخی حیثیت پرروشنی ڈالا اور کہاکہ غالب توسیعی خطبہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ایک اہم پہچان ہے ملک اور بیرون ملک کے کئی بڑے ادیبوں نے غالب توسیعی خطبہ پیش کیاہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی ایک ایسے موضوع پر خطبہ پیش کر رہے ہیں جس پر کم گفتگو ہوئی ہے ہمیں پوری امید ہے کہ آپ کے اس خطبے سے غالب کے غیر متداول کلام کی اہمیت کوبھی ہم سمجھ سکتے ہیں۔ شاہد ماہلی نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے خطبے سے ہمارے علم میں اضافہ ہوااور ادارے کا وقار بھی بڑھا ہے۔اس موقع پر پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی اہم کتاب’’تفہیم غالب‘‘ کے تیسرے ایڈیشن کی رسمِ رونمائی بھی ہوئی۔ جلسے میں امریکہ کے اہم ڈاکٹر اور اردو کے ادیب جناب سیدامجد حسن بھی موجود تھے جنہیں غالب انسٹی ٹیوٹ کی کتابوں کا تحفہ پیش کیاگیا۔ اس کے علاوہ پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر اسلم پرویز، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر شمس الحق عثمانی،ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر خالد اشرف، ڈاکٹر اخلاق احمد آہن، پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر عراق رضازیدی، ڈاکٹر اطہر فاروقی، اے رحمان، ڈاکٹر اشفاق عارفی، ڈاکٹر شعیب رضا خاں، ڈاکٹر احمد محفوظ، ڈاکٹر نجمہ رحمانی، ڈاکٹر ارجمند، ڈاکٹر نشاں زیدی، ڈاکٹر جاوید رحمانی، ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، مسعود فاروقی کے علاوہ بڑی تعداد میں 
اہل علم موجود تھے۔

Tuesday, April 1, 2014

کتاب’’انیسویں صدی میں، ادب، تاریخ اور تہذیب‘‘ کا اجرا

۲۸ مارچ کو شام چھے بجے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ۸۰ ویں سالگرہ کے موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں ایک بڑے جلسے کااہتمام کیاگیا۔ اس تاریخی موقع پر پروفیسر صدیق الرحمن قدوای کے اعزاز میں ترتیب دی گئی کتاب’’انیسویں صدی میں، ادب، تاریخ اور تہذیب‘‘ کا اجرا بہاروہریانہ کے سابق گورنر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ شاہد مہدی کے دستِ مبارک سے عمل میںآیا۔ اس کتاب کو ڈاکٹراطہر فاروقی، ڈاکٹر رضاحیدراور ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے ترتیب دیااو رانجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیاہے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اردو کے اُن ممتاز ادیبوں میں ہیں جن کا انیسویں صدی کی تاریخ، تہذیب، روایت اور ادب پر اہم علمی کام ہے۔ ماسٹر رام چندر پر لکھی ہوئی آپ کی کتاب ادبی دنیامیں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہیں تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر کتاب کے مرتبین نے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ۸۰ویں سالگرہ کے موقع پر اُن کے اعزاز میں ایک ایسی کتاب ترتیب دی ہے جس میں ۲۲بزرگ ادیبوں اور دانشوروں کے مضامین شامل ہیں۔یہ تمام مضامین ۱۹ویں صدی کی تاریخ، ادب اور تہذیب کا پوری طرح سے احاطہ کرتے ہیں۔ جلسے کی ابتدا میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب کا تعارف پیش کیااور ڈاکٹر سرورالہدی،شاہد مہدی اور پروفیسر مینجر پانڈے نے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ادبی خدمات پر گفتگو کی۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ۸۰ویں سالگرہ کے موقع پر انجمن ترقی اردوہند، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، غالب انسٹی ٹیوٹ، دلّی اردو اکادمی ، غالب اکادمی، عالمی اردو ٹرسٹ، ساہتیہ اکادمی، مکتبہ جامعہ، شعبہ اردودلّی یونیورسٹی، شعبہ اردو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، شعبہ فارسی دلّی یونیورسٹی، شعبہ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ، ذاکر حسین کالج کے علاوہ دلّی کے دیگر علمی و ادبی اداروں کے سربراہوں کی طرف سے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی خدمت میں گلدستہ پیش کیا گیا۔ اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ دلّی کے سبھی اداروں کے نمائندے موجود تھے اور انہوں نے پروفیر صدیق الرحمن قدوائی کو اظہارِ تہنیت پیش کیا ۔






Monday, March 3, 2014

غالب انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتاب پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پرممتاز ادیب و دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اہم کتاب ’’غالب ۔معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتااور شعریات‘‘ پر ایک اہم مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو اُن کی اس تاریخی کتاب پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں غالبیات کے تعلق سے ہرصفحے میں نئی بات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل بھی غالبیات پر بے شمار تنقیدیں لکھی گئیں لیکن پروفیسر نارنگ کے اس علمی کام کو تحقیق و تنقید کی دنیامیں ہمیشہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھاجائے گا۔ اس جلسے کے مہمانِ خصوصی کینیڈاکے معروف ادیب و دانشور ڈاکٹر تقی عابدی نے فرمایاکہ یہ کتاب بے پناہ خصوصیات کی حامل ہے اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہرصفحہ غالب سے مربوط ہے۔ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالب کے سومناتی خیال پر بھی گفتگو کی ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں ۲۱ ابواب قائم کئے ہیں اور اس کا ہر باب فکر انگیز اور معنی خیز ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے یہ بھی فرمایاکہ اس کتاب کا فارسی میں بھی ترجمہ ہونا چاہئے تاکہ ایرانی حضرات بھی اس علمی تحفے سے مستفید ہوسکیں۔ ممتاز نقاد پروفیسر عتیق اللہ نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں اپنی روشن دماغی کا ثبوت دیاہے۔ انہو ں نے غالب کے ہرشعر کو چیلنج کی طرح قبول کیاہے اور اُس کی عالمانہ تعبیر پیش کی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری ادبی دنیا میں یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت سے جانی جارہی ہے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر علی احمد فاطمی نے فرمایاکہ نارنگ صاحب نے اپنی اس کتاب میں غالب کے اشعار کی نئی توجیحات پیش کی ہے جسے پڑھ کر ہمارا دماغ روشن ہوجاتاہے۔ پروفیسر نارنگ نے شونیتا کے فلسفے کو غالب کی شاعری سے جس طرح مربوط کیاہے اُس سے اس کتاب کی وقعت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ اس کتاب کو لکھ کر پروفیسر گوپی چندنارنگ نے اپنا شماراہم غالب شناسوں میں کرالیاہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالب کو نئے طریقے سے دریافت کیا ہے۔ غالب نے اپنے کلام میں جس نئی شعریات کو وضع کیاآپ نے اس کتاب میں اُس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ فلسفہ شونیتاپربھی جس عالمانہ طریقے سے آپ نے گفتگو کی ہے اس سے پہلے اردو دنیامیں اس انداز سے کسی نے گفتگو نہیں کی تھی۔ نظام صدیقی نے فرمایاکہ کتاب کے ہرباب میں پروفیسر نارنگ نے غالب کے اشعار کی جس عالمانہ اندازمیں شرح پیش کی ہے اس سے یہ کتاب غالبیات کی دنیامیں سنگِ میل کی حیثیت کی حامل ہوگئی ہے۔ عالمی اردو ٹرسٹ کے چیرمین جناب اے رحمان نے کہاکہ ہماری ادبی دنیامیں غالبیات کے تعلق سے اتنی اہم اور معنی خیز کتاب کم ہی لکھی گئی ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے شونیتاکے ساتھ ساتھ جدلیاتی وضع کو مفکرانہ اندازمیں واضح کیاہے۔ ساہتیہ اکادمی کے پروگرام آفیسر ڈاکٹر مشتاق صدر نے فرمایاکہ حالی کی ’’یادگارغالب‘‘ کے بعد اگر کسی کتاب نے ہمارے دل و دماغ کو متاثرکیاہے تو وہ نارنگ صاحب کی موجودہ کتاب ہے۔ یہ کتاب اکیسویں صدی کی اُن شہرہ آفاق کتابوں میں سے ایک ہے جس کاہر صفحہ مصنف کے عالمانہ افکار کی ترجمانی کررہاہے۔نوجوان ناقد ڈاکٹر مولیٰ بخش نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں ہندستان کی پوری تاریح اور فلسفے کے تناظرمیں غالب کی شاعری کودیکھاہے۔ موجودہ دورمیں اس کتاب کی اس لئے بھی اہمیت ہے کہ جہاں ہر طرف ظلم و تشدد کاماحول گرم ہے وہیں یہ کتاب ہمیں روشنی بھی عطا کررہی ہے۔ ڈاکٹر راشدانورراشد نے کہاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالبیات کے چھپے ہوئے اُن گوشوں پر گفتگو کی ہے جس پر ابھی تک کسی کی نظرنہیں گئی تھی۔جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے ابتدامیں کتاب کاتعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس کتاب کاہر صفحہ اور ہر لفظ غالبیات کی ایک نئی بازیافت ہے اس کتاب کا دلچسپ پہلویہ بھی ہے کہ مصنف نے غالب کے اردو اشعار کے ساتھ ساتھ فارسی اشعار پربھی عالمانہ گفتگو کی ہے اور فارسی کے بڑے شعرا فردوسی، رومی اور بیدل کے کلام کے تناظر میں غالب کے کلام کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔اس مذاکرے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں پروفیسر گوپی چند نارنگ خود موجود تھے اور انہوں نے اس مذاکرے کے لئے غالب انسٹی ٹیوٹ کاشکریہ اداکرتے ہوئے فرمایاکہ یہ مجھ پر ایک قرض تھاجومیں نے اداکردیا۔ اس لئے کہ غالب کو سمجھنا آسان نہیں ہے، غالب پر لکھتے ہوئے میں ہمیشہ ڈرتاہوں کہ ممکن ہے حق ادا نہ ہوسکے۔ آپ نے یہ بھی کہاکہ غالب پرسب سے زیادہ لکھاگیااور سب سے کم غالب کوسمجھا گیا۔ غالب کی شاعری کو پڑھ کر ہندستان کی تہذیب و تاریخ کا علم ہوتاہے کیونکہ غالب کے کلام کی جڑیں اس ملک کے تمام مذاہب کی جڑوں سے ملی ہوئی تھیں۔ غالب کی شاعری شعریت سے بھرپور ہے جس کو حالی نے بھی نیرنگیِ نظر کہاہے۔ مجلس فروغ اردو ادب دوحہ، قطر کے چیرمین محمد عتیق نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔ جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین اور مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نارنگ صاحب کو اُن کی معرکۃ الآرا کتاب پر مبارک باد پیش کی۔ چار گھنٹے تک چلنے والے اس تاریخی مذاکرے میں دلی اردو اکادمی کے سکریٹری انیس اعظی، محمد شمیم، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر ابوظہیر ربّانی، ڈاکٹر سہیل انور، ڈاکٹر ادریس احمد، اقبال مسعودفاروقی، محسن شمسی کے علاوہ بڑی تعداد میں اہل علم موجود تھے۔

Sunday, February 16, 2014

بین الاقوامی سمینار(یومِ غالب)کا انعقاد


غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ، آغاخان فاؤنڈیشن، انجمن ترقی اردو دلّی و غالب اکیڈیمی کے تعان سے غالب کی یومِ وفات(یومِ غالب) کے موقع پر ’’کلامِ غالب کا تجزیہ‘‘ کے موضوع پرمنعقدبین الاقوامی سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے آغاخان فاؤنڈیشن کے چیئرمین پروفیسر آباد احمدنے فرمایاکہ غالب کی غزل کے ساتھ اُن کے خطوط نے بھی ہمیں ردو نثرکاقیمتی سرمایہ دیاہے۔ ہندستان کی تاریخ کو ہم غالب کی نثر کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ آپ نے اس سمینار کے انعقاد کے لئے غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کی اور اپنا تعاون پیش کرتے رہنے کاوعدیٰ کیا۔اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی سکریٹری غالب انسٹی ٹیوٹ نے کہاکہ غالب کے اشعارکا کمال ہے کہ اُس کے بے شمار معنی ہم نکال سکتے ہیں۔ غالب کے اشعار کی خوبی ہے کہ ہر محفل میں اُس کے کئی سیاق و سباق سے ہم متعارف ہوتے ہیں۔ آپ نے موضوع کے تعلق سے فرمایاکہ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے اسکالرز اس موضوع کے تعلق سے کلامِ غالب کاتجزیہ مختلف اور نئے انداز میں پیش کریں گے۔ ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹرسید رضاحیدر نے اپنی افتتاحی گفتگو میں کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ اور انجمن ترقی اردو دلّی شاخ پچھلے ۴۵برسوں سے غالب کی یومِ وفات کے موقع پر یومِ غالب کا اہتمام کررہاہے۔ اس دفعہ ہم نے اس جلسہ کادائرہ وسیع کردیاہے اور اسے بین الاقوامی سمینار اور عالمی مشاعرہ کی شکل دے دی ہے۔ آپ نے مزید فرمایاکہ غالب کے کلام کااعجاز ہے کہ کلامِ غالب کی آفاقیت یہ ہے کہ دوسوسال کاطویل عرصہ گذرجانے کے بعدبھی غالب کی شاعری ہماری فضاکومعطر کیے ہوئے ہے۔غالب کے کلام کو پڑھ کر یہ احساس ہوتاہے کہ غالب ہماری زندگی سے بے حد قریب ہے۔معروف ادیب و دانشور اور خدابخش لائبریری کے سابق ڈائرکٹرڈاکٹر عابدرضابیدارنے فرمایاکہ غالب کی شاعری کاکمال ہے کہ وہ اپنے اشعار میں ایسا نکتہ پیش کرتے ہیں جو ہماری تہذیب سے بے حد قریب ہے۔ یہ بھی غالب کے کلام کی خوبی ہے کہ اردوپرتو بُراوقت پڑسکتاہے مگر غالب کی شاعری پرنہ کبھی بُراوقت پڑااور نہ پڑے گا۔کینیڈا کے معروف اسکالراور ڈرامہ نگارجاوید دانش نے فرمایاکہ اتنے طویل عرصے کے گذر جانے کے بعدبھی ہم آج بھی غالب یاد کرکے خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایاکہ اس انفارمشین ٹکنالوجی کے د ورمیں بھی غالب فیس بُک اور انٹرنیٹ کی دنیامیں بھی کافی مقبول ہیں۔ غالب امریکہ اورکینڈامیں صرف اردو داں طبقے میں مقبول نہیں ہیں بلکہ ہرپڑھالکھا آدمی غالب کو پڑھتااور سمجھتا ہے۔ اس موقع پر آپ نے غالب کی ایک غزل کاانگریزی ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔لندن سے تشریف لائے’صددا‘ میگزین کے ایڈیٹر اقبال مرزانے فرمایاکہ انگلینڈ میں رابندرناتھ ٹیگور، اقبال اور غالب بے حد مقبول ہیں اور غالب ان دونوں سے زیادہ مقبول ہیں۔ غالب کے اشعارکی خوبی یہ ہے کہ ہر خاص و عام میں غالب کے اشعار مقبول ہیں۔افتتاہی اجلاس کے اختتام سے پہلے انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہدماہلی نے تمم مہمانوں کا شکریہ ادا کرکے اس جلسہ کی تاریخی حیثیت پر بھی روشنی ڈالی۔آخر میں الٰہ آباد سے تشریف لائیں معروف غزل سنگر منیرہ خاتون نے غالب کی غزلیں اپنی خوبصورت آواز میں پیش کیں۔اس جلسہ میں علم و ادب کی بے شمار ہستیاں موجود تھیں۔
دو روزہ بین الاقوامی سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت لندن سے تشریف لائے مہمان اسکالراور صدا میگزین کے مدیر ڈاکٹر اقبال مرزا اور انجمن ترقی اردو ہند دہلی شاخ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹراطہرفاروقی نے کی اورنظامت کافریضہ ڈاکٹر شعیب رضاخاں نے انجام دیا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر سہیل انور،ڈاکٹر خالدمبشر، ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب، ڈاکٹر نجمہ رحمانی اور ڈاکٹر مرزاشفیق حسین شفق نے اپنے گراں قدر مقالات پیش کئے۔ ان تمام حضرات نے غالب کی اہم غزلوں کا تجزیہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔ اس اجلاس میں کینیڈاکے معروف ادیب و دانشور ڈاکٹر تقی عابدی کامقالہ جے این یو کے ریسرچ اسکالر محمد رکن الدین نے پڑھا۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے مقالہ میں غالب کی ایک فارسی غزل کا عالمانہ محاکمہ پیش کیا۔ جس کی فاضل مقرر نے خوبصورت قرأت کی۔ سمینارکے دوسرے اجلاس کی صدارت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر شمیم حنفی اور ازبکستان سے تشریف لائے اسکالر ڈاکٹر سراج الدین نورمتو موجود تھے۔اس اجلاس میں پروفیسر انوارپاشا،ڈاکٹر عشرت ناہید، پروفیسر عتیق اللہ نے اپنا عالمانہ مقالہ پیش کیا۔ اس جلاس کے اہم مقالہ نگار پروفیسر عتیق اللہ غالب کی پہلی غزل کے پہلے شعر پر اپنا پُرمغز مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے مقالہ میں غالب کے پہلے شعر کاکماحقہ محاکمہ پیش کیا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر ممتاز عالم نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی،ڈاکٹر عابد رضابیدار اور کینیڈا کے معروف ڈرامہ نگار ڈاکٹر جاوید دانش نے کی اور اس اجلاس میں پانچ اہم مقالے پیش کئے گئے۔ ڈاکٹر مشتاق صدف ڈاکٹر جمیل اختر، ڈاکٹرکوثر مظہری، ڈاکٹر سراج اجملی اور ڈاکٹر ابوبکر عباد نے اپنے مقالات پیش کئے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر شگفتہ یاسمین نے نظامت کی۔اس سمینار کی خاص بات یہ تھی کہ تمام مقالہ نگار حضرات نے غالب کی ۲۰ اہم غزلوں کاعالمانہ تجزیہ پیش کیااور اپنے نقطہ نظرکی وضاحت کی۔ اس موقع پر آغاخان فاؤنڈیشن کی امیرخسرو پرلکھی ہوئی خوبصورت کتاب تمام مقالہ نگار حضرات کو تحفتہً پیش کی گئی۔ اس سمینار میں طلبا و طالبات، ریسرچ اسکالرز،اساتذہ اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین کثیر تعداد میں موجود تھے۔ سمینارکے بعدایک عالمی مشاعرے کااہتمام کیاگیاجس کی صدارت جناب گلزار دہلوی نے کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے دہلی سمبلی کے ایم۔ایل۔اے جناب شعیب اقبال موجود تھے۔ اس مشاعرے میں ملک اور بیرون ملک کے اہم شعرانے شرکت کی۔
--




یومِ غالب کے موقع پر عالمی مشاعرہ 

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ، آغاخان فاؤنڈیشن، انجمن ترقی اردو دلّی شاخ و غالب اکیڈیمی کے تعان سے غالب کی یومِ وفات(یومِ غالب) کے موقع پر ’’کلامِ غالب کا تجزیہ‘‘ کے موضوع پرمنعقدبین الاقوامی سمینارکے موقع پر ۱۶؍فروری شام ۶بجے ایوانِ غالب میں عالمی مشاعرہ کابھی انعقاد کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کومحظوظ کیا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت عہد حاضر کے بزرگ شاعر جناب گلزار دہلوی نے انجام دی۔ نظامت کا فریضہ جناب معین شاداب نے انجام دیا۔ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر رضاحیدر نے اس مشاعرے کی تاریخی حیثیت پرروشنی ڈالی۔اس مشاعرہ کا آغاز شاہد ماہلی کی نظم ’’غالب‘‘ سے ہوا۔
رفعتِ فکر و تخیّل کا سراپاکہئے
معنی و ہیئت و اسلوب میں تنہا کہئے
اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پیش ہیں کچھ شعرا کرام کے منتخب کلام:
تو کہ ہر شخص کا سمجھایا ہوا تُو
کس قدر اور لگا لوٹ کے آیاہوا تو
نسرین،بھٹی (لاہور)
میری پہلو تہی کے بھی نئے پہلو نکل آئے
میں جس در پر بھی دستک دوں وہیں سے تو نکل آئے
زاہد نبی(لاہور)

ہم ان سے کم ہی امید افادہ رکھتے ہیں
غلط ہیں وہ جو توقع زیادہ رکھتے ہیں
ابرار کرتپوری
ہر مسلک ہر مکتب عشق نہیں ہوتا
سب لوگوں کا مذہب عشق نہیں ہوتا
معین شادب
گلزار آبروئے زباں اب ہمیں سے ہے
دلّی میں اپنے بعد یہ لطف سخن کہاں؟
گلزار زُتشی دہلوی
پوچھئے دل سے عشق میں ایسے قدم اٹھائے کیوں
خود ہے بنائے دردِ دل کرتا ہے ہائے ہائے کیوں
متین امروہوی
دہلی سخنوروں کا ہے مرکز مگر میاں
اردو کے کچھ چراغ تو،پنجاب میں بھی ہیں
جتندر پرواز
پسند آئے خدا باعمل فقیر تجھے
پسند نہ آئے ذرا بے عمل امیر تجھے
عارف دہلوی
بدل سکے نہ شب و روز ان کی فطرت کو
گلوں کے ساتھ تھے لیکن وہ خار خار رہے
اقبال مرزا(لندن)
گھرانے پر اثر پڑنے لگا ہے دور حاضر کا
روایت ختم ہوتی جارہی ہے خاندانوں کی
عظمی اختر
فقیری آج تک فطرت ہے میری
حویلی میں بظاہر رہ رہا ہوں
جاوید دانش(کینیڈا)
ہمیں نصیب ہیں صحرا نوردیاں یارو
نہ اپنے گھر کو نہ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
سلیم صدیقی
بہت شدت سے یاد آیا بچھڑ جانے پہ اس کے
وہ لمحہ، یہ سفر آغاز جب ہم نے کیا تھا
سراج اجملی
آکے جو اُس نے بسائی دل کی بستی ایک دن
پھر صدا دینے لگا یہ ساز ہستی ایک دن
نسیم نیازی
ساتھ فرعون لے گیا حسرت
لاکھ چاہا مگر خدا نہ ہوا
ماجد دیوبندی
نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پائی
زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے
پروفیسر غضنفر
اب نہ سمجھوتہ کروں گا کبھی رفتار کے ساتھ
پھٹپھٹی میں نے لگادی ہے تری کا رکے ساتھ
اقبال فردوسی
مہکی مہکی چاندنی، جھلمل ندی کاذائقہ
رُخ پہ زلفوں نے دیا خوش منظری کا ذائقہ
ظفر مراد آبادی
ہتک آمیز نظروں سے کوئی دیکھے جہاں ہم کو
قدم رکھنا بھی اس دہلیز پر اچھا نہیں لگتا
وقار مانوی
انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہد ماہلی نے تمام سامعین کافرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔
۔۔