Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Tuesday, August 27, 2013

غالب اور عہدِ غالب کا اجرا

جناب حامد انصاری کے ہاتھوں غالب اور عہدِ غالب کا اجرا

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام، نائب صدرِ جمہوریہ ہند، عزت مآب جناب حامد انصاری کے دستِ مبارک سے اُن کی رہائش گاہ ۶مولانا آزاد روڈ، نئی دہلی میں، فیسر صدیق الرحمن قدوائی، جناب شاہد ماہلی اور ڈاکٹر رضاحیدر کی شاہکار تصنیف ’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس جلسے میں اتراکھنڈ کے گورنر، جناب عزیز قریشی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ نائب صدرِ جمہوریہ جناب حامدانصاری نے’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ یہ کتاب،غالب، عہدِ غالب، معاصرینِ غالب اور ہندستان کی تہذیب و ثقافت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں پہلی جنگ آزادی (۱۸۵۷) کے تعلق سے غالب کے جوخطوط ہیں اس کے تناظرمیں بھی گفتگو کی گئی ہے کیونکہ غالب کی زندگی پر ۱۸۵۷ کی جنگ کے اثرات کافی مرتب ہوئے اور وہ دلّی کی تباہی سے بے حد نالاں تھے۔ اس کتاب کے مصنفین کواس شاندار کتاب پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے آپ نے مزید یہ فرمایاکہ اس کتاب سے ہمیں عہدِ غالب کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے بارے میں آپ نے کہاکہ موجودہ دور میں اردو کو ترقی مل رہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنو ں میں حالات اور سازگار ہوں گے۔ اتراکھنڈ کے گورنر جناب عزیز قریشی نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کی ستائش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ ادارہ اردو زبان و ادب اور غالبیات کے حوالے سے جو کام کررہاہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ آپ نے غالب انسٹی ٹیوٹ سے اپنی پرانی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ اس ادارے سے میرا تعلق اُن دنوں سے ہے جب یہ ترقی کے ابتدائی مرحلے میں تھا۔ اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن نے اپنی استقبالیہ تقریر میں تمام مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اب تک غالب ،ان کے عہد ،ان کے معاصرین اور اردو کے اہم مصنفین پر تقریباً تین سو کتابیں شایع کرچکا ہے۔ مگر ہمیں اب تک غالب سے متعلق کسی ایسی کتاب کی کمی محسوس ہوتی تھی جس میں غالب اور ان کے عہدکی زندگی ایسی تصویروں کے ذریعے ایک بار نظروں میں پھر جائے جنہیں کیمرہ آنے سے پہلے کسی نہ کسی طرح بنایاگیا تھا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذخیرے میں ایسی بہت سی تصویریں محفوظ ہیں جن میں سے چند کو منتخب کیاگیاہے۔ غالب نے کلکتہ کا سفر کیاتھا،راستے میں ،لکھنؤ،بنارس،باندہ، الٰہ آباد، عظیم آباد ،اور ان شہروں سے باہر سرایوں میں ٹھہرے۔ ہم نے ان مقامات کی تصویرں کو حاصل کیا۔ جن میں سے کچھ اس کتاب میں شامل ہیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے وائس چیرمین ڈاکٹر پرویز احمد نے فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے بے شماراردو و فارسی اور انگریزی کتابوں کی بھی اشاعت کی ہے جو ہماری ادبی تاریخ میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔موجودہ کتاب ’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ کو آج آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمیں اس لئے بھی خوشی ہورہی ہے کہ یہ کتاب غالب، عہدِ غالب، معاصرینِ غالب، عہدِ غالب کی عمارتوں اور ۱۸۵۷ء کے واقعات کو تصاویر کی روشنی میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ کتاب صرف اردو داں طبقے تک ہی محدود نہ رہے اس لئے ہم نے اِن تمام تصاویر اور واقعات کو انگریزی زبان میں بھی پیش کیا ہے تاکہ یہ ہر خاص و عام میں مقبول ہوسکے۔
جلسے کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب (’’غالب اور عہدِ غالب‘‘) کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں غالب اور عہدِ غالب کے ساتھ ساتھ ۱۸ویں صدی کے ہندستان کو خوبصورت تصاویر کی روشنی میں اردو اور انگریزی دونوں زبانو ں میں پیش کیا گیا ہے۔ جلسے کے آخر میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین کاشکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایاکہ ہماری یہ کوشش رہے گی کہ ہم آنے والے دنو ں میں اس سے بھی بہتر علمی تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتے رہیں۔ اس جلسے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی اور دلّی ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس جناب بدر دُرریز احمد، محسنہ قدوائی، شاہد مہدی، اے رحمان، گلزار دہلوی، ڈاکٹر اطہر فاروقی، آصف اعظمی، فاروق ارگلی، سلیم امروہوی، مسعود فاروقی، ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، یاسمین فاطمہ، عبدالتوفیق، عبدالواحد کے علاوہ بڑی تعداد میں اہلِ علم تشریف فرما تھے۔

تصویر میں بائیں سے: پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، جناب عزیز قریشی، جناب محمد حامد انصاری، ڈاکٹر پرویز احمد، جناب شاہد ماہلی، ڈاکٹر رضاحیدر

--



فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کا اہتمام

غالب انسٹی ٹیوٹ میں فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کا اہتمام 
موضوع: ’’ہندوستان کے ایک سیکولر بنیاد پرست کے تصورات‘‘

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سابق صدر جمہوریہ ہند مرحوم فخرالدین علی احمد کے یومِ ولادت کے موقع پر فخرالدین علی احمد میموریل لکچرکااہتمام کیاگیا۔ جس میں سابق مرکزی وزیر اور راجیہ سبھا کے ممبر جناب منی شنکر ایئر نے ’’ہندوستان کے ایک سیکولر بنیاد پرست کے تصورات‘‘ کے موضوع پر اپنا نہایت ہی عالمانہ خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ پوری دنیا میں ہندوستان کی جہاں بہت ساری باتوں سے پہچان ہے وہیں ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے کیونکہ سیکولرازم پورے برصغیر میں ہندوستان کے علاوہ ہمیں کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی مثال دیتے ہوئے فرمایاکہ وہاں سیکولرازم کو لامذہبیت سے تعبیر کیا جاتاہے مگر ہندوستان میں اُن ہی لوگوں کو زیادہ پسند کیا جاتاہے جو سیکولر ہوتے ہیں۔اس لیے کے اس ملک میں سیکولرازم کی تعبیر و تشریح دنیاکے کئی ممالک سے مختلف ہے۔ منی شنکر ایئرنے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ میرے نزدیک سیکولر ہونے کا مطلب تمام مذاہب اور تمام عقائد کا احترام کرناہے۔ موصوف نے ہندوستان کے تمام مذاہب پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اس ملک کے تمام مذاہب کی خوبی یہی ہے کہ یہ تمام مذاہب سیکولرازم کی تعلیم دیتے ہیں۔ مسلم بادشاہوں کاذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے تھے اور تمام مذاہب کے تہوار میں حصہ لیتے تھے۔ سیکولرازم کو قومیت کی بنیاد بتاتے ہوئے آپ نے مزید فرمایاکہ ہم چاہے کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں مگر ہماری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم کسی مذہب کے ماننے والوں کو اور اُن کے عقائد کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ کیونکہ ہم سب سے پہلے ہندوستانی ہیں۔اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں فرمایاکہ اس تاریخی موقع پرجب پورا ملک اپنے سابق صدر جمہوریہ کو یاد کر رہاہے کیونکہ مرحوم فخرالدین علی احمد نہ صرف اس ملک کے صدر جمہوریہ تھے بلکہ وہ قومی یکجہتی اور اتحاد و مساوات کے بہت بڑے حامی بھی تھے۔ لہٰذا منی شنکر ایئرجیسے سیاست داں، دانشور اور سیکولر کااس موقع پر خطبہ پیش کرنا مرحوم فخرالدین علی احمدکی خدمت میں اس سے بہتر خراجِ عقیدت نہیں ہوسکتاتھا۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ماہرِ تعلیم احمد رشید شیروانی نے فرمایاکہ منی شنکر ایئرکا آج کایہ خطبہ اس لیے ہراعتبار سے کامیاب ہے کیونکہ اُن کی گفتگو میں اُن کی زندہ دلی کابھی اظہار تھا۔ آپ نے یہ بھی کہاکہ جو شخص اچھا انسان نہیں ہوسکتانہ وہ اچھا مسلمان نہ ہندو نہ سکھ اور نہ اچھا عیسائی ہوسکتاہے۔ اس لئے کہ انسانیت ہی تمام مذاہب کی بنیادوں میں ہے۔ ڈاکٹر رضاحیدر نے منی شنکر ایئر کا تعارف پیش کیااور جلسے کی نظامت کی۔ آخر میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین کاشکریہ ادا کیا۔ اس جلسے میں فخرالدین علی احمد صاحب کے دونوں صاحبزادے جسٹس بدر دُرریز احمداور ڈاکٹر پرویزاحمدکے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد جمع تھے۔