Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Monday, April 3, 2017

شام شہر یاراں کے تحت تین ریسرچ اسکالرز کی کتابوں پر مذاکرہ

نئی دہلی،مورخہ 28مارچ2017:غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام شام شہر یاراں کے تحت تین ریسرچ اسکالرز کی کتابوں پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔اس جلسے کی صدارت پروفیسر عبدالحق صاحب نے فرمائی جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے شرکت کی۔ اس جلسے میں جے این یو کے ریسرچ اسکالر رضی شہاب کی کتاب’ افسانے کی شعریات‘ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے حال ہی میں پی ایچ ڈی کرنے والے محمد مقیم کی کتاب ’کلیات غزلیات ناسخ ‘ اور دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد نظام الدین کی کتاب ’مولانا آزاد کے صحافتی تراجم اور اردو ترجمہ نگاری ‘ پر مقررین نے بھرپور اظہار خیال کیا ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے فعال ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر نے مہمانوں کا استقبال کرنے کے بعدکتابوں کا تعارف پیش کیا اور تینوں کتابوں کے تعلق سے چند اہم باتیں کہیں۔ معروف دانشور اور ادیب پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ رضی شہاب کی کتاب کافی حد تک ٹیکنیکل ہے تاہم یہی اس کتاب کی خوبی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ادیب افسانے کے فن پر لکھی گئی کتابوں کو پڑھ کر افسانہ نہیں لکھتا لیکن اس کی تنقید لکھتے وقت ان باتوں سے آگاہی ضروری ہے جن کی طرف ’افسانے کی شعریات‘ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ کوئی نوجوان ناسخ کی کلیات مرتب کرے۔ پروفیسر عبدالحق نے طلبا کی کتابوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ متون کی ترتیب و تدوین بہت اہم اور بڑاکام ہے اور کوئی جرأت مند شخص ہی اس کام میں ہاتھ لگا سکتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ متن کے بغیر تنقید واہمہ ہے ۔ اس لیے ایک نوجوان ریسرچ اسکالر کے ذریعے کلیات غزلیات ناسخ کی ترتیب اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے۔ انہوں نے نظام الدین کی کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نوجوان اگرابوالکلام آزاد کے کسی ایسے اہم گوشے کی بازیافت کی جسارت کررہا ہے تو یہ قابل مبارکباد عمل ہے ۔الہ آباد سے اس پروگرام میں خصوصی شرکت کے لیے تشریف لانے والے مہمان پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ رضی شہاب کی کتاب بہت اہم ہے اور میں نے اس کتاب کو اپنی میز پر رکھ چھوڑا ہے ۔ جلد ہی اس کے بارے میں اپنی رائے تحریر بھی کروں گا ۔ حالانکہ یہ کتاب کافی ٹیکنیکل ہے مگر یہ اس نووارد ریسرچ اسکالر کی ذہانت کی بھی غماز ہے۔ ڈاکٹر سفینہ نے افسانے کی شعریات کے حوالے سے اپنی باتیں رکھیں اور کتاب کا بھر پور تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ جگہوں پرتکرار کی کیفیت سے بچا جا سکتا تھا لیکن کتاب بہت اہم ہے اور ہم طالب علموں کے لیے بہت مفید ہے۔پروفیسر احمدمحفوظ نے مصنفین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ باعث خوشی ہے کہ ان میں سے دو کتابوں کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ فاروقی صاحب سے ہے اور وہ اس مذاکرے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ پروفیسر معین الدین جینابڑے نے بہت ہی مختصر مگر جامع خطاب فرمایا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اگر ہمیں کچھ طلبا ایسے ملیں جن کے اندر کچھ صلاحیتیں ہوں تو ہمیں انہیں پروان چڑھانے کے لیے محنت کرنی چاہیےے اور انہیں ایسے مواقع ملنے چاہییں کہ وہ پھلیں پھولیں اور اس سلسلے میں غالب انسٹی ٹیوٹ قابل مبارکبادہے کہ اس نے ان بچوں کے لیے ایسے مذاکرے کا اہتمام کیا۔ پروفیسر ابن کنول نے طلبا کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ جب بھی کچھ لکھیں تو اسے اپنے اساتذہ کو دکھا لیں تاکہ بہت سی معمولی غلطیاں نہ ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ ریسرچ اسکالرز کو اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی سے ہٹ کر بھی کچھ لکھنا چاہیے تاکہ ا ن کی قلمی صلاحیت پروان چڑھے اور اسے اعتبار حاصل ہو سکے۔ اس حوالے سے انہوں نے نظام الدین کو مبارکباد دی کہ ان کا یہ کام صرف اورصرف ان کی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔اس جلسے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر عزیر اسرئیل نے انجام دئے۔ مذاکرے میں جرمنی سے آئے ہوئے مہمان جناب عارف نقوی، جناب اطہر فاروقی، ڈاکٹر سرورالہدی ، معروف افسانہ نگارنگار عظیم، جناب حسنین اختر، رخشندہ روحی ، وسیم راشد،ڈاکٹر سہیل انور، یاسمین فاطمہ اور جاوید رحمانی کے علاوہ جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

Thursday, March 23, 2017

پروفیسرعقیل رضوی کو الٰہ آباد میں استقبالیہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام اس عہد کے ممتاز ادیب و دانشور اور ترقی پسند ناقد پروفیسر سید محمد عقیل رضوی کے اعزاز میں الہ آباد یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا ۔ جس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے الہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رتن لال ہانگلو موجود تھے۔ اس جلسہ میں ڈاکٹر علی احمد فاطمی ،ڈاکٹر علی جاوید ، ڈاکٹر اطہر فاروقی، ڈاکٹر سنتوش بھدوریا،پروفیسر شبنم حمید ، پروفیسر راجندر کمار ، ڈاکٹر رضا حیدر نے اظہار خیال کیا۔ اس جلسہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پروفیسر سید محمد عقیل رضوی موجود تھے۔ اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سید محمد عقیل رضوی کی خدمت میں سپاس نامہ، مومنٹو ، شال اور پچا س ہزار روپے بہ طور نذرانہ پیش کیا گیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے ’’پروفیسر سید محمد عقیل رضوی ادیب و دانشور‘‘ نام کی ایک کتاب بھی ان کے اعزاز میں شائع کی ۔ جس کی رسم رونمائی الہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رتن لا ل ہانگلو کے دست مبارک سے ہوئی اور یہ کتاب تمام سامعین میں تقسیم کی گئی۔وائس چانسلر پروفیسر رتن لال ہانگلو نے اپنی تقریر میں کہا کہ اردو ہمارے تمدن کی روح ہے اور پروفیسر عقیل رضوی کی علمی و ادبی خدمات کے ضمن میں کہا جب تک دنیا رہے گی اردو کے حوالے سے انھیں یاد کیا جائے گا۔پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی تقریر میں کہا کہ الہ آباد اپنے متعدد کارہائے نمایاں کی وجہ سے اپنی امتیازی پہچان رکھتا ہے۔عقیل رضوی کی علمی وادبی خدمات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس کا اعتراف بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔لیکن اس کے باوجود غالب انسٹی ٹیوٹ ان کو یہ اعزاز دیتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہے۔ پروفیسر علی جاوید نے عقیل رضوی کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوکہا کہ پروفیسر عقیل رضوی کی ادبی خدمات پور ی دنیا کے اردو ذخیرہ میں اہمیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر راجندر کمار نے عقیل رضوی کو اردو عربی فارسی اور انگریزی زبانو ں کا ماہر قرار دیا۔پروفیسر شبنم حمید نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر عقیل رضوی کو ملا یہ اعزاز پورے الہ آباد یونیورسٹی کے لیے فخر کی بات ہے۔ ڈاکڑ اطہر فاروقی نے پروفیسر رضوی کی تعلیمی خدمات کے حوالے سے کہا کہ انھوں نے تین نسلوں کی تربیت کی ہے۔پروفیسر علی احمد فاطمی نے اپنے استادپروفیسر عقیل رضوی کی علمی و ادبی خدمات کے ساتھ ان کی سماجی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میرے اندر جو کچھ علمی شعور اور تنقید ی آگہی ہے وہ سب استاد کی مرہون منت ہے۔جلسے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے اس استقبالیہ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس سے قبل بھی متعدد ادیبوں اور دانشوروں کواس استقبالیہ سے سرفراز کیا ہے،آج ہمیں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم آج اس عہد کے نامور ناقد و دانشور پروفیسر سید محمد عقیل رضوی کو اعزازیہ سے سرفراز کر رہے ہیں۔پروفیسر سیدمحمد عقیل رضوی کی علمی و ادبی خدمات کادائرہ اتنا وسیع ہے جس کا احاطہ ناممکن ہے۔آپ کی تحریروں اور تقریروں سے آج بھی ہم سبھی کو روشنی مل رہی ہے۔اس استقبالیہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسر ڈاکٹر ادریس احمد، عبدالواحد،عبدالتوفیق موجود تھے۔ الہ آباد یونیورسٹی کا تاریخی سینیٹ ہال الہ آباد یونیورسٹی کے اساتذہ و ریسرچ اسکالر اور مختلف شہر سے آئے ہوئے مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔





Monday, February 27, 2017

غالب انسٹی ٹیوٹ میں بیگم عابدہ احمد میموریل لکچر

غالب انسٹی ٹیوٹ کی اہم ثقافتی تنظیم ’’ہم سب ڈرامہ گروپ‘‘ کی طرف سے ملک کی سابق خاتونِ اوّل بیگم عابدہ احمد کی یادمیں ۲ مارچ شام ساڑھے پانچ بجے ایوانِ غالب میں ایک لکچرکا اہتمام کیا جارہاہے جس میں نامور ڈرامہ نگار،ہدایت کار اور سماجی کارکن ایم۔کے رینا ’’فنکاراور بدلتا سماج‘‘ کے عنوان سے خطبہ پیش کریں گے۔ اس جلسے کی صدارت دلّی ہائی کورٹ کے جج جسٹس بدر دُرریز احمد فرمائیں گے۔ ڈاکٹر رخشندہ جلیل چیئرپرسن ،ہم سب ڈرامہ گروپ، مہمان مقرر کا تعارف کرائیں گی۔ ہم سب ڈرامہ گروپ غالب انسٹی ٹیوٹ کی اہم ثقافتی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد مرحومہ بیگم عابدہ احمد نے رکھی تھی۔ ہم سب ڈرامہ گروپ کی طرف سے دلّی و بیرونِ دلّی میں ۵۰سے زیادہ ڈرامے اسٹیج کیے جاچکے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے قریب جب دلّی میں ثقافتی سرگرمیاں بہت محدود تھیں ایسے ماحول میں ہم سب ڈرامہ گروپ نے اہم تاریخی ڈرامے پیش کیے جنہیں دیکھنے کے لیے اُس وقت کی تمام عظیم ہستیاں آتی تھیں۔ فن کار سماج کے ہر پہلو کواپنی اداکاری کے ذریعے اسٹیج پر پیش کرتاہے۔ فن کار کا سماج سے اور سماج کا فن کارسے ایسا رشتہ ہے جس کی حقیقت کو ہردورمیں تسلیم کیا گیا ہے۔ایم۔کے۔ رینا ایک ایسے اسکالرہیں جنہوں نے اپنی تحریروں سے اپنے افکاراوراپنے فن سے طویل عرصے سے سماج کے ہر طبقے کواپنے قریب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہٰذا امید کی جارہی ہے کہ وہ اس موضوع پر کچھ ایسے نکات بھی پیش کریں گے جس کی موجودہ وقت میں ضرورت ہے۔

Wednesday, December 21, 2016

بین الاقوامی سمینار کا انعقاد

 نئی دہلی:آج شام غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام غالب آڈیٹوریم میں بین الاقوامی غالب سمینار کا افتتاح ہوا۔اس موقع پر سالانہ غالب انعامات ۲۰۱۶ء بھی تقسیم کیے گئے ۔ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنرایس وائی قریشی کے ہاتھوں ایوارڈ کی تقسیم کی گئی ۔پروفیسر علی احمد فاطمی کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے اردوتحقیق وتنقید،پروفیسرعبدالقادرجعفری کوفخرالدین علی احمدغالب انعام برائے فارسی تحقیق وتنقید،محترمہ ذکیہ مشہدی کو غالب انعام برائے اردونثر،مرحوم بیکل اتساہی کو غالب انعام برائے اردوشاعری،جاوید دانش کو ہم سب غالب انعام برائے اردوڈرامہ اورسنجیو صراف کومجموعی ادبی خدمات کے لیے غالب انعام پیش کیا گیا ۔اس موقع پر سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہاکہ مجھے بہت خوشی ہے کہ مجھے ایوارڈ دینے کاشرف حاصل ہوا۔تمام ایوارڈ یافتگان کو ۷۵ہزارروپے اورٹرافی پیش کیے گئے۔
پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی ،سکریٹری ،غالب انسٹی ٹیوٹ نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہاکہ یہ سالانہ سمینار ہمارے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔اس سمینار کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ اس میں ملک اور بیرون ممالک کے اسکالرز بھی شرکت کرتے ہیں۔تاکہ ادب کے مسائل پر گفتگو کے در واہوسکیں اور اس طرح غالب اور دیگر اہم شخصیات کی فکروفن پر بھی گفتگوہوسکے۔ہمارے ادارے کو ہمیشہ مقاصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ادب میں غیر کا تصورکاعنوان جب لوگوں تک پہنچا تو لوگ متحرک ہوئے ۔دراصل ادب کا دائرہ کار زندگی کے تمام پہلووں کو محیط ہے۔صرف شاعری یا مخصوص شخصیات تک محدود نہیں ہے۔غیرکا تصور صرف رقیب تک محدود نہیں ،بلکہ کئی بار غیر اپنے وجود میں بھی پایا جاتا ہے۔غالب نے بھی اپنے ایک خط میں خود کو ہی غیر کہا ہے ۔یہ موضوع مختلف ردعمل کے لیے ہم سب کو ابھارتا ہے۔میں آپ سب کا استقبال کرتا ہوں اور خاص طور پر انعامات حاصل کرنے والوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
اپنے کلیدی خطاب میں معروف ناقد ودانش ور پروفیسر شمیم حنفی نے کہاکہ ادب اورتاریخ کا ہرپس منظر ایک مٰخصوص دائرہ رکھتا ہے۔غالب نے اپنے وجود سے خود کو الگ کرکے خودکو غیر کے طورپر دیکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ہٹلرکہتا تھاکہ کسی ملک کے عوام کو جذباتی طورپر بربادوتباہ کرنا زیادہ آسان ہے۔ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس میں ٹیگور شریک نہیں ہوسکے تھے لیکن انہوں نے لکھ کر بھیجا تھا کہ انا کی کینچلی سے نکل کر دنیا کودیکھنے کی کوشش کرو۔عشقیہ شاعری میں فیض کے علاوہ سب نے غیر کو رقیب کا نام دیا ہے ۔فیض نے اس رقیب کو اپنے گلے لگالیا ہے ۔اقبال نے اس سلسلے میں خود کو الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اس کا احساس بہت دیر میں ہوا۔ نظریاتی ٹوٹ پھوٹ نے اپنے علاوہ سب کو غیربنادیا ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ اس زمانے نے خود کو بھی غیربنادیا ہے ۔ٹیگورآج کے تمام مقبول عام کلچرکے مخالف تھے۔ٹیگورنے لفظ نیشنلزم کی بھی سخت الفاظ میں تردید کی تھی ۔صارفیت اور سیاست کی بالادستی نے ادب اورتخلیق کی راہیں محدود کرنے کی کوشش کی ہے ۔اب کلاسیکی غزل کے رقیبوں کی طرح بہت سے رقیبوں کا سامنا ہے ۔
اپنی صدارتی تقریر میں جسٹس آفتاب عالم نے کہاکہ اپنے زمانے میں یقیناًغالب عندلیب گلشن ناآفریدہ تھے۔لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے چند ہی برسوں بعد ملک تقسیم کے کرب سے گزرے گا۔غالب کے یہاں آنے والے زمانے کے افکار پائے جاتے تھے اورغالب کی تشکیل پوری طرح ہندوستان میں ہوئی تھی۔مجھے فخر ہے کہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں میں مقدوربھر شریک رہتا ہوں ۔اس موقع پر میں تمام انعامات حاصل کرنے والوں کو مبارک باد پیش کرتاہوں اور غالب انسٹی ٹیوٹ آپ کو ایوارڈ پیش کرکے آپ کا حق اداکررہا ہے ۔اس قدرنئے موضوع کے انتخاب کے لیے میں ادارے کے عہدے داروں کو مبارک باد پیش کرتاہوں ۔
افتتاحی اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر سید رضا حیدرنے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے سال بھر کے تمام پروگرواموں کی تفصیل پیش کی۔اس موقع پر تمام مہمانوں کا گلدستہ پیش کرکے استقبال کیا گیا ۔راجدھانی دلی کی تمام یونیورسٹیوں کے اساتذہ ،طلبہ اورمعززین شہرموجود تھے۔اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات کا اجرا معزز مہمانوں کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔اس افتتاحی ا جلاس کے بعد محترمہ ودیہ شاہ نے غالب اوردیگر اہم اردو شعراکے کلام پیش کرکے حاضرین کو محظوظ کیا۔
بین الاقوامی سمینار بعنوان’ اردوادب میں غیرکا تصور‘ کے دوسرے روزکے آخری اجلاس میں اپنی صدارتی تقریرمیں معروف ادیب ودانش ور پروفیسر ہربنس مکھیا نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے نئی کھڑکیا ں کھولی ہیں ،جس کی وجہ سے ہمارے اذہان بھی وا ہوئے ہیں اور ہم سب نے مختلف پہلووں پرغورکیا ہے ۔ہم مل بیٹھ کر اس موضوع پر غوروفکر کررہے ہیں ۔آئندہ بھی اس طرح کے چیلنجنگ موضوعات پرسمینارہونے چاہئیں ۔اغیارہمارے اندربھی ہیں اورباہر بھی اور سب سے ہماری کشمکش اورتال میل بھی ہے ۔کوئی بچہ اپنی شناخت لے کر پیدا نہیں ہوتا ۔جس خاندان میں پیداہوتا ہے وہی اس کی شناخت بن جاتی ہے اوربارہا اس شناخت کو فرقہ وارانہ رنگ بھی دیا جاتا ہے۔خسروکی ہندوی شاعری انتہائی مؤثر ہے،جسے پڑھنے سے آنکھوں میں آنسو بھرجاتے ہیں ۔غیرکاتصوربے انتہااورلامحدود ہے۔ایک سمینارسے اس موضوع کے مکمل نتائج اخذ نہیں کیے جاسکتے ۔اس اجلاس میں تین مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات پیش کیے ۔معروف فکشن نگارمشرف عالم ذوقی نے اپنے مقالے میں کہاکہ ہم تضادات کے درمیان ہیں ،دنیا بدل رہی ہے ۔نئی نئی غیریت جنم لے رہی ہے۔ہرجگہ غیرکا تصورموجود ہے۔شعبہ اردودہلی یونیورسٹی کے استادڈاکٹرابوبکرعبادنے اپنے مقالے میں کہاکہ اردوادب میں غیرکے تصورکو موضوع بحث بنایاگیا ہے۔اردوفکشن نے غیرکے تمام تصورات اورپہلوؤں کو روشن کیا ہے ۔اس اجلاس کے آخری مقالہ نگارمعروف ترقی پسند ناقدپروفیسرعلی احمدفاطمی نے کہاکہ پریم چند نے پہلی بارمعمولی اورغیراہم کرداروں کو اردوادب میں جگہ دی ہے۔اردوادب نے جن لوگوں کواہمیت نہیں دی تھی ،پریم چند نے بلاتفریق پورے سماج کوپیش کیا۔
سمینارکے دوسرے روز کے دوسرے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے معروف وممتاز ادیب وناقد پروفیسرشمیم حنفی نے کہاکہ اس موضوع کے بہانے زندگی ،کائنات اورتمام ترحالات پرنظرڈالنے کا موقع ملا ہے۔آج ہم نے بے تحاشاغیربنالیے ہیں ۔ہمارے لیے ادب کاجو حصہ پریشانی کا سبب بنے وہی ہمارے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے ۔ادب کا مقصوداصلی محض حظ کا حصول نہیں ہے۔عام طورپرجس طرح کے مقالات ہمارے سمیناروں میں پیش کیے جاتے ہیں ۔اس سمینارکے مقالات کی سطح اس سے بہت بلند ہے ۔اس اجلاس میں پروفیسر انیس اشفاق نے اپنے مقالے میں مشرق ومغرب کے ادب میں پائے جانے والے غیرکے تصور کو پیش کیا ۔انہوں نے نہ صرف نثر بلکہ شاعری سے بھی مثالیں پیش کرکے غیرکے تصورکی وضاحت کی ۔محترمہ ذکیہ مشہدی نے کہاکہ اس سمینار کا موضوع خاصا اہم ہے دیگر بہت سے ادبا افسانہ نگار،نثرنگاراورشاعربھی ہیں ۔لیکن میں افسانہ نگارہوں اور اپنے مقالے کو اسی تک محدود رکھوں گی ۔انہوں نے بھی اس موضوع پرسیرحاصل گفتگو کی۔اسی اجلاس میں معروف جدیدیت پسند فکشن نگار ڈاکٹر خالد جاویدنے تصورغیرکی فلسفیانہ تشریحات کرکے مغرب کے تمام اہم ناول نگاروں اورفکشن نگاروں پراپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے مشرق میں پائے جانے والے تصورغیرکو پیش کیا ۔اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز کے مقالے میں انہوں نے اردو ادب میں غیرکے تصورکو تلاش کیا۔دہلی یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اپنے مقالے میں کلاسکی شاعری اورجدید شاعری میں پائے جانے والے تصورغیرکو پیش کیا۔
اس سے قبل سمینارکے دوسرے روز کے پہلے اجلاس میں صدارتی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹرضیاء الدین شکیب نے کہاکہ اس اجلاس کے تمام مقالات سراہے جانے اوردوبارابغورپڑھے جانے کے لائق ہیں ۔غالب انسٹی ٹیوٹ مبارک باد کامستحق ہے کہ اس نے اتنے اہم موضوع کو اپنے سمینارکے لیے منتخب کیا ۔ اس اجلاس میں مقالہ پیش کرتے ہوئے علی گڑھ سے تشریف لائے پروفیسرقاضی جمال حسین نے کہاکہ تصورغیرعہدبہ عہد بدلتا رہتا ہے اور ہرعہد اپنے ساتھ نئے تصورات لے کرآتا ہے ۔اسی اجلاس میں معروف افسانہ نگاردیپک بدکی نے کشمیر،پنجاب وغیرہ کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے فن میں پائے جانے والے تصورغیرکی وضاحت صراحت کے ساتھ کی ۔مصرسے تشریف لائیں ڈاکٹر رانیہ محمدفوضی نے بھی اس اجلاس میں اپنا مقالہ پیش کیا اورانہوں نے اردوادب میں غیرکے تصورپربحث کی ۔
اس اجلاس کے دوران غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹرسیدرضاحیدرنے مہمانوں ،مقالہ نگاروں اورسامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ اس موضوع پربھی ہمارے مقالہ نگاروں نے سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔تمام مقالہ نگاروں کو ہم نے موضوع دے کر مقالہ لکھنے کی درخواست کی تھی اور تمام مقالہ نگاروں نے اپنے موضوع کا حق ادا کیا ہے ۔دوسرے روز کے تینوں اجلاس میں سامعین نے بھرپور دلچسپی لی اور مقالات پر گفتگو کی ۔مقالات پربحث کرنے والوں میں بالخصوص ڈاکٹر خالدعلوی ،ڈاکٹر ابوبکرعباد ،ڈاکٹر نجمہ رحمانی ،پروفیسرسراج اجملی اورمحترمہ ذکیہ مشہدی پیش پیش تھیں ۔اس سمینار کے پہلے دن کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ مقالہ نگاروں نے ان موضوعات پربھی گفتگو کی جن پر اردوادب کے تعلق سے کم گفتگوہوتی ہے۔مقالہ نگاروں نے اردوادب کے علاوہ دوسری زبان وادب میں جو غیرکا تصورہے ،اس پر بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا ۔سمینارکے دوسرے روز معروف مزاحیہ شاعرپاپولرمیرٹھی کی کتاب بوم میرٹھی اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹرسہیل انورکے مضامین کامجموعہ افکارونظریات کا اجرابھی عمل میں آیا۔
سہ روزہ سمینارکے دوسرے روز شام کو ایک عالمی مشاعرے کاانعقادبھی کیا گیا ،جس کی صدارت معروف شاعرگلزاردہلوی نے کی ،معین شاداب نے نظامت کے فرائض انجام دیے اوراس عالمی مشاعرے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اترپردیش اردواکادمی کے چیئرمین ڈاکٹرنواز دیوبندی نے شرکت کی ۔
بین الاقوامی سمینار بعنوان’ اردوادب میں غیرکا تصور‘ کے آخری اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے جواہرلال نہرویونیورسٹی کے سابق پروفیسرپرشوتم اگروال نے کہا کہ ہم نے یہاں غیرکے تصورپرہم نے معلوماتی اورفلسفیانہ مقالات سنے اوران مقالات کو سن کر ہم نے اپنی الجھنیں اورپریشانیاں دور کیں ۔معاصرزمانے کی بدعنوانیوں اورسیاست کو ادب نے بہت پہلے درج دفترکردیا ہے ۔پریم چند کے بعد ہندی ادب میں مسلم کردارتلاش کرناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔مگراردوکی صورت حال ایسی نہیں ہے۔اگرپریم چند کی طرح آج کا کوئی ہندی ادیب مسلمانوں کے بارے میں کچھ لکھتا ہے توعین ممکن ہے کہ اس کی آتھنٹی سٹی کو ہی چیلنج کردیا جائے ۔زبان کا وجودہی غیرکے وجود کااثبات ہے۔ترجمے عالمی انسانیت کا عکاس ہیں ۔ہرغیرمیں اپناکچھ ہوتا ہے یااپنے جیسا کچھ ہوتا ہے۔میں عورت نہیں ہوں مگرعورت ہونے کے درد کا احساس اگرمجھ میں موجود ہے تویہ کریڈٹ ٹیگوراورپریم چند کو جاتا ہے۔ہندوستانی تہذیب وتمدن نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے اوراسے عیاں کرنے میں آگ کا دریا کااہم کردار ہے ۔اس لیے وہ ناول میرے لیے انتہائی اہم ہے۔ادب صرف وہ نہیں ہوتا جوبلاتاخیرسمجھ میں آجائے بلکہ ادب وہ ہوتا ہے ،جو اپنی تفہیم کرانے سے پہلے ہمیں پریشان کرے۔دراصل ادب ،قاری اورمصنف کے لیے غیرکے تصورعکاس ہے۔پروفیسراگروال نے اپنے اختتامی خطاب میں ہم عصرسیاست ،ادب ،قارئین ،سامعین اورادبا کے عملی رویوں پربھی خاطرخواہ روشنی ڈالی ۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسرصدیق الرحمان قدوائی نے کہاکہ غالب انسٹی کے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ پروفیسرپرشوتم اگروال اورپروفیسراپوروانند یہاں تشریف لائے ۔جومقالات اس سمینار میں پڑھے گئے وہ اتنے ٹھوس،مستحکم اورپائیدارہیں کہ اس سے پہلے میں نے اس طرح کے موضوعات پر اتنے اچھے مقالات نہیں سنے ۔ہمارے یہاں صلاحیتیں ،سنجیدگی سے لکھنے والے افراد موجود ہیں مگرہمارا مزاج یہ بن چکا ہے کہ ہم اردو والے ہیں تو شعر ہیں پڑھیں گے یافلم کے ڈائیلاگ لکھیں گے۔اس سمینار کے مقالات ،بحث بہت معیاری ہیں آپ سب کا شکریہ کہ آپ حضرات نے سمینار میں شرکت کی ۔مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح ہمارا رشتہ مستحکم رہے گا۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدرنے کہا کہ اتنے ادق موضوع پر بہترین مقالات پیش کیے گئے ۔مجھے امید ہے کہ یہ مقالات جب شائع ہوں گے تو ان سے زیادہ استفادہ کیاجائے گااوران مقالات کا مجموعہ ایک دستاویز ثابت ہوگا۔یہ ایسا موضوع تھا ،جس پر ہندی اوراردو والوں نے یکساں دلچسپی لی ،ہم آئندہ بھی اسی طرح کے موضوعات کا انتخاب کریں گے تاکہ ہمارے تمام اسکالراعلی فکری صلاحیتوں سے لیس ہوکر اورکافی غوروفکر کے ساتھ اپنے مقالات لکھیں گے ۔انہوں نے اس موقع پر تمام مہمانوں ،مقالہ نگاروں اورسامعین کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے پروفیسر پرشوتم اگروال کا استقبال کرتے ہوئے ان کی خدمت میں گلدستہ بھی پیش کیا اور کہاکہ اس موضوع نے ہم سب کو ایک اسٹیج پر لانے کا کام کیا ہے اور ہم نے یہ کوشش کی تھی کہ موضوع کی تمام جہتیں کھل کر سامنے آئیں یہی وجہ ہے کہ ملک اوربیرون ممالک کے اسکالروں نے بھی بھرپور طریقے سے اپنے موضوع کا حق ادا کیا ہے ۔
خیال رہے کہ اس آخری سیشن سے پہلے یعنی چھٹے اجلاس کی صدارت بھی پروفیسرصدیق الرحمان قدوائی نے کی اور اس سیشن میں ڈاکٹر خالد قادری ،ڈاکٹریوسف عامراورڈاکٹرسرورالہدی نے اپنے مقالات پیش کیے ،جس میں موضوع کی مختلف جہتوں پر بحث کی گئی ۔ 
پانچویں سیشن کی صدارت ہندی کے معروف ادیب پروفیسراپوروانند ،استاذ دہلی یونیورسٹی نے اپنی صدارتی تقریرمیں کہاکہ غیر کا تصوراس زمانے میں کچھ زیادہ ہی اپنے بال وپر بکھیر رہا ہے ،اب یہ دیکھیں کہ میں خودآپ سب کے لیے غیرہوں ۔ایسے ایسا بالکل نہیں ہے کہ غیرکاتصورکوئی نیا تصورہے ۔زمانہ قدیم سے ہی یہ تصورہمارے سماج میں پایا جاتا ہے ۔کئی بار غیرکا تصورمرکزیت کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اورایک مخصوص قوم یا طبقے کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔تاکہ لوگ دوحصوں میں منقسم ہوجائیں ۔خواہ یہ رویہ کوئی بھی اختیارکرے مگر یہ تو ماننا ہوگاکہ وہ غیرکے تصورکو مستحکم کررہا ہے ۔انہوں نے اس موقع پر اپنے سیشن اور اس سے پہلے کے اجلاسوں میں پیش کیے گئے مقالات کی فراخ دلی کے ساتھ ستائش کی ۔اس اجلاس میں ڈاکٹرضیاء الدین شکیب ،پروفیسرابوالکلام قاسمی،پروفیسرقاضی افضال حسین نے اپنے مقالات پیش کیے ،اس سیشن میں غیرکے تصور کا لسانی جائزہ ،نظموں میں غیرکاتصوراوراقبال کی شاعری میں غیرکے تصور کی تلاش وجستجو کی گئی۔
سمینار کے آخری دن کے پہلے سیشن میں کی صدارت کرتے ہوئے معروف ناقد وفکشن نگارپروفیسرانیس اشفاق نے کہاکہ غیرکے تصورکے اتنے اطراف وجوانب ہیں ،جن کا احاطہ ایک سمینار کے ذریعہ نہیں کیا جاسکتا ۔اس سیشن میں ڈاکٹردرگاپرشاد گپت نے معاصر دنیا کو پیش نظررکھ کر غیرکے تصورکو پیش کیا۔پروفیسرشافع قدوائی نے اردو اوردیگر زبانوں میں پائے جانے والے غیرکوتصورکا جائزہ لیا۔کینیڈا سے تشریف لائے جاوید دانش نے ڈراموں میں پائے جانے والے غیرکے تصورپر اپنے ڈراموں کے خصوصی حوالے سے گفتگوکی ۔سمینارکی تمام تقریبات میں تمام شعبوں کی معززشخصیات کے ساتھ عوام نے بھی شرکت کی ۔
غالب تقریبات کے اختتام پر شام چھ بجے ہم سب ڈرامہ گروپ(غالب انسٹی ٹیوٹ) کی طرف سے معروف ڈرامہ نگار اشوک لال کا تحریر کردہ اُردو ڈرامہ ’’بدھ غالب‘‘ پیش کیاگیا ،اس کی ہدایت کے فرائض بھی اشوک لال نے انجام دئے ۔


















Tuesday, November 8, 2016

Monday, October 31, 2016

سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار


قومی کونسل برائے فروغ انسانی وسائل وغالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار 

قومی کونسل برائے فروغ انسانی وسائل وغالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام منعقد سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرزسمینارکے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبے میں معتبروممتاز ناقدومحقق اورہندوستان میں جدیدیت کے بانی پروفیسرشمس الرحمان فاروقی نے غالب آڈیٹوریم میں کہا کہ آج کی تحقیق یا تحقیق کے نام پرجوکچھ ہورہا ہے۔اس سے میں مطمئن نہیں ہوں ۔تحقیق کرتے ہوئے یہ پیش نظررکھنا چاہیے کہ اپنے موضوع کے اعتبارسے نئی تعبیرات کاہم انکشاف کریں ۔ہماری ادبی تاریخ میں بہت سے محققین ہیں ،جنہوں نے ادبی نتائج کواپنے معتقدات کے مطابق ہونے کی وجہ سے قبول کرلیا۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ جونتائج اورفیصلے پہلے سے موجود ہیں ،ان پرآنکھ بندکرکے یقین نہیں کرنا چاہیے ۔کوئی روایت چاہے جنتی مصدق ہومگراپنی تحقیق کے بغیراسے قبول نہیں کرنا چاہیے ۔تحقیق کی موجودہ صورت حال دروں بینی اورخود احتسابی کی دعوت دیتی ہے،جس کا پاس ولحاظ رکھنا اشد ضروری ہے۔افتتاحی اجلاس کی صدارتی تقریر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلرسیدشاہدمہدی نے کہ اکہ ریسرچ اسکالرز کی شرح نمو ہندوستانی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے ۔یہ صورت حال صرف اردوتک محدود ومسدود نہیں ہے۔بہت سے شعبوں کی صورت حال اردو سے زیادہ خراب ہے۔اردوتحقیق کوایک مخصوص دائرے سے باہرلانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ تازہ ہواآسکے۔فارسی زبان وادب کے ماہرپروفیسرسید طلحہ رضوی برق چشتی داناپوری نے کہاکہ ریسرچ اسکالرزکوبھی معلوم نہیں ہوتا کہ تھیسس میں لکھا ہواکیا ہے ۔ریسرچ اسکالرز کوچاہیے کہ جوچیزیں آنکھوں سے پوشیدہ ہیں ،انہیں سامنے لائیں ۔اچھی اردوکے لیے فارسی کاجاننا ضروری ہے۔طلبہ وطالبات کے شایان شان جو مدد نہ ہووہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھیں ۔اپنی تہذیب کی بقاکے لیے زبان کی بقا کویقینی بنانا ہوگااورزبان کی بقا کے لیے جدوجہداورمحنت کی ضرورت ہے ۔موجودہ صورت حال کے پیش نظراحتساب بھی ضروری ہے اوراحتساب ریسرچ اسکالرز تک محدود نہیں ہونا چاہیے ۔اس سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینارمیں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسرطلعت احمد نے کہا کہ یہ سمینارطلبہ وطالبات کے لیے ہی ہے۔دوسرے شعبوں کے لوگوں کومدعوکرنااچھی پیش رفت ہے ۔باہرکی دنیا میں جدیدچیزیں طلبہ کو ہی ازبرہوتی ہیں اوروہی صدارت کرتے ہیں ۔آج کے زمانے میں ریسرچ کرنا پہلے کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے ۔آج آپ کے پاس گلوبل دنیا تک رسائی بہت آسان ہے۔نیٹ نے دشواریوں کو ختم کردیا ہے۔انہوں نے اس موقع پر زود نویسی کی ممانعت بھی بیان کی اورکہاکہ کم لکھیں مگر اچھا لکھیں ۔اچھا استاذ وہ ہوتا ہے ،جو خود سے اچھا شاگرد پیداکرے ۔اس موقع پراپنے تعارفی کلمات میں قومی کونسل برائے فروغ انسانی وسائل کے متحرک وفعال ڈائرکٹر پروفیسرارتضی کریم نے کہاکہ ادب وتحقیق اورتنقید عبادت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ہمارے اساتذہ نے خود کو فنافی الادب کیا تب کہیں انہیں یہ مقام ومرتبہ حاصل ہوسکا۔یہ راہیں تسلسل چاہتی ہیں ۔ریسرچ اسکالرز کو باندھ کرنہیں رکھنا چاہیے انہیں یہ آزادی دینی چاہیے کہ وہ جس سے چاہیں استفادہ کریں ۔انہوں نے پرجوش طریقے پرریسرچ اسکالرز کا اس سمینار میں خیرمقدم اوراستقبال کیااورکہاکہ قومی کونسل نے ریسرچ اسکالرز کو گود لے لیا ہے ۔تاکہ وہ بہترسے بہتر کام کرسکیں ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسرصدیق الرحمن قدوائی نے استقبالیہ تقریرکرتے ہوئے تمام مہمانوں اورریسرچ اسکالرز کا خیرمقدم کیااوراعلی تعلیم کی طرف کم ہوتے رجحان کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی ۔انہوں نے کہاکہ ہم سب کو آپ لوگوں سے ہی امیدیں وابستہ ہیں۔معاصرادب ،تحقیق اورتنقید کی تاریخ آپ کوہی رقم کرنی ہے۔اس لیے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے آپ سب کو متحرک وفعال ہونا ہی ہوگااوریہی وقت کا جبری تقاضہ بھی ہے ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدرنے افتتاحی اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت میں ریسرچ اسکالرز کی تمام سمیناروں میں سب سے زیادہ ضرورت ہے اس لیے کہ ہم نے اگر ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائی نہیں کی تو ہم اردو وفارسی زبان و ادب کے ساتھ انصاف نہیں کرسکیں گے۔آپ نے مزید کہاکہ ریسرچ اسکالرز سمینارکی مقبولیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سال چالیس سے زیادہ یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز اس سمینار میں مقالہ پیش کر رہے ہیں۔اس سمینارمیں دلچسپیوں کاتذکرہ کیااوراپنی خوشی کا اظہاربھی کیا اوراس سمینارکی تیاریوں میں آنے والی دشواریوں کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے اساتذہ سے مزید تعاون کی درخواست کی ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ٹیگورپروجیکٹ کے کامیاب اختتام کے بعد اس کے ذمہ داران نے گیارہ سو کتابیں مجھ تک پہنچائی ہیں ۔جنہیں میں سمینارکے آخری دن ریسرچ اسکالرز کو پیش کروں گا۔اس افتتاحی اجلاس کے دوران چارکتابوں کو اجرابھی مہمانوں کے دست مبارک سے ہوا۔خیال رہے کہ یہ تمام کتابیں ریسرچ اسکالرز کی تصانیف ہیں ۔جن میں افسانے کی شعریات ،رضی شہاب،شیریں کتھا،ضیاء اللہ انور،علامہ ،صالحہ صدیقی اورراحین شمع کے ترجمے کی رسم اجراہوئی۔اس موقع پرممتاز محقق وناقد شمس الرحمان فاروقی سمیت تمام مہمانوں نے مصنفین کو مبارک باد دی ۔سمینارکے پہلے اجلاس کی کی صدارت کرتے ہوئے جے این یو کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے چیئرپرسن پروفیسرانورپاشا نے کہاکہ زوال ہرجگہ نمایاں ہے،بیوروکریٹس کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔انہیں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔زبان ،تہذیب ،تمدن ،تشخص اورثقافت کاتحفظ ناگزیر ہے۔اپنی نوجوان نسل سے توقعات وابستہ کرنا فطری امر ہے۔نوجوان نسل کے کاندھے جتنے مضبوط ہوں گے،ادب،زبان اورتہذیب اتنی ہی مستحکم ہوں گی ۔کامیاب سمینارکے انعقادکے لیے میں ڈائرکٹر اورغالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتاہوں ۔پہلے اجلاس کی مجلس صدارت کے دوسرے رکن پروفیسرقاسم فریدی نے کہاکہ اس سمینارمیں آنے سے قبل شعبے میں اپنے اساتذہ سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے ۔تاکہ یہاں کسی طرح کی خامی اورغلطی کا امکان باقی نہ رہے ۔پہلے اجلاس میں نورین علی حق نے نظامت کی اورمحمد عالم گیرانصاری،نرگس بیگم ،فہیم اشرف ،سرفراز خان،محمدشہاب الدین ،رضوانہ عارف ،ثنافاطمہ اورفرحین انجم نے مختلف موضوعات پراپنے اپنے مقالے پیش کیے ۔دوسرے اجلاس کی صدارت ڈاکٹراسلم جمشیدپوری،ڈاکٹراخلاق آہن اورصالحہ رشید نے کی اس اجلاس میں عالیہ خان نے نظامت کی اور محمد عابدکریم،احمدذکی،محمدفراز ،نصرت امین اورانصاراحمد نے مقالات پیش کیے ۔


سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینارکے دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدرات کرتے ہوئے فارسی کے معروف اسکالروسابق صدرشعبۂ فارسی ،دہلی یونیورسٹی پروفیسرشریف حسین قاسمی نے کہاکہ سمینارکے آداب بجالانا ناگزیرہے۔اس سے صدورکی اہمیت یاوقارمیں اضافہ نہیں ہوگا لیکن آپ کو آداب معلوم ہوں گے ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ اگراردوقصائدکاموازنہ عربی قصائد سے ہوگاتوفارسی کے توسط سے ہوگا۔اردوکے قصیدہ گوشعرافارسی کے شعراسے متاثرتھے۔نہ کہ عربی کے شعراسے ۔انہوں نے آخر میں تمام مقالہ نگاروں کو مبارک باد پیش کی ۔اس موقع پراپنی صدارتی گفتگو کرتے ہوئے ڈؑ اکٹرشعیب رضاخان وارثی نے کہاکہ سمیناروں میں متعدداجلاس ہوتے ہیں ۔اس لیے وقت کی پابندی ضروری ہے۔اسکالرز کو چاہیے کہ وہ سیشن شروع ہونے سے قبل ہال میں داخل ہوجائیں ۔انہوں نے طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اساتذہ کے ایک ایک عمل پران کے طلبہ وطالبات کی نظر ہوتی ہے۔اس لیے اساتذہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔طلبہ وطالبات والدین سے زیادہ اساتذہ کو لائق عمل سمجھتے ہیں ۔اس سیشن کے ایک اورصدرڈاکٹراطہرفاروقی نے پروفیسرشمس الرحمن فاروقی کی اس سمینار میں موجودگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جس سمینار میں اجلاس میں شمس الرحمان فاروقی صاحب موجود ہوں ،وہ تاریخی حیثیت کاسمینار ہوجا تاہے ۔مجھے انہیں دیکھ کرخوشی ہورہی ہے اورطلبہ کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے ۔خیال رہے کہ دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں ندامعید،ظہیرحیدرنقوی ،یاسمین بانو،محمدیوسف ،صدف حنیف،سعدیہ جعفری،عذراشکیل،پردیپ خسرونے مختلف عناوین پراپنے اپنے مقالات پیش کیے۔اس سیشن کی نظامت جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالرغزالہ فاطمہ نے کی ۔بین الاقوامی سمینارکے دوسرے دن کے دوسرے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدرپروفیسرخالدمحمودنے تمام مقالہ نگاروں کے مقالات پرفرداًفرداًتبصرہ کیا اورتمام ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائیوں کے ساتھ ہی ان کی اصلاح بھی کی۔اس موقع پر انہوں نے کہاکہ عام طورپردیکھاجاتا ہے کہ ریسرچ اسکالرز ثانوی اورتیسرے درجے کے مآخذسے مددلیتے ہیں اوراصل متن کے مطالعے کو یقینی نہیں بناتے یہ عمل نہ صرف قابل صدافسوس ہے بلکہ ریسرچ اسکالرز کا اس سے کافی خسارہ بھی ہے۔اس عمل میں مثبت اورمستحکم تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ناول ،افسانہ اورشعری اصناف کے اصل متن تک جب تک رسائی نہیں ہوگی ۔ہم بے معنی باتیں کرتے رہیں گے ۔اسی سیشن کے دوسرے صدرپروفیسرمظہرمہدی ،جواہرلعل نہرویونیورسٹی نے کہاکہ علاقائی حدبندی کامقصدعلاقائی عصبیت کا فروغ نہیں ہے۔البتہ اگر علاقائی حدبندیوں کے باجودان علاقوں کے فن پاروں میں گہرے معانی کی تلاش ممکن نہ ہوسکے تویہ بہترنتیجہ نہیں ہوگا۔سوالات قائم ہونے چاہئیں ۔یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس علاقے کی ہم حدبندی کررہے ہیں وہاں کے مصنفوں کی خصوصیات کیا ہیں ۔اس سیشن کی نظامت بحسن وخوبی سیدعینین علی حق نے کی ۔اس اجلاس میں صائمہ منظور،ترنم جنین،وصی الدین شیخ ،ایرانی اسکالرزینب محمودیان دارابی ،محمدعرفان،ضیاء اللہ انورنے اپنے مقالے پیش کیے۔سمینارکے دوسرے دن کے تیسرے سیشن میں دہلی یونیورسٹی کے صدرشعبۂ اردو پروفیسرابن کنول نے اپنی صدارتی تقریرمیں کہاکہ کوئی شعبہ ایسانہیں ہے ،جہاں زوال ہی زوال ہویاعروج ہی عروج ہو،ہرجگہ عروج وزوال کا دور دورہ ہے ۔کسی زمانے میں تمام کے تمام ریسرچ اسکالرزیاتمام شعرایاتمام ادبا مشہورومعروف اورمعتبرومعتمد نہیں ہوئے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اچھے اوربہتراسکالرکی شناخت کرنی ہے ۔یہ سمیناراس کام کے لیے ہی منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ریسرچ اسکالرز اپنی کاوشیں یہاں پیش کریں اوراساتذہ ان کی اصلاح کریں ۔اس سیشن کے دوسرے صدرجواہرلعل نہرویونیورسٹی کے استاذ پروفیسرمعین الدین جینابڑے نے فردافرداتمام مقالہ نگاروں کے مقالوں پربھرپورتبصرہ کیا اوراپنی گفتگوسے ریسرچ اسکالرز کو بات کہنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔انہوں نے کہاکہ میں نے خاص طورپریہ محسوس کیاکہ اس سیشن کے تمام ہی مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے کو بروقت ختم کیا اوریہ عمل اچھا عندیہ ہے کہ آپ پابندی وقت کے قائل ہیں ۔ایک اسکالر کو پابندئ وقت کا قائل ہونا بھی چاہیے ۔اس سے بہتر سے بہتر کام ہم کرسکتے ہیں ۔سیشن کے تیسرے صدرڈاکٹرصفدرامام قادری نے کہاکہ مقالات پربہت سی باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔مگر وقت کی قلت دامن گیر ہے ۔انہوں نے بلاترددتمام مقالہ نگاروں کی خامیاں بھی گنوائیں ۔اس سیشن کی نظامت جامعہ کی ریسرچ اسکالرصالحہ صدیقی نے کی ۔اس سیشن میں مصطفی علاء الدین محمدعلی،شاہ نواز احمد،راہین شمع،محمدمعروف،تمناشاہین،رزینہ خان اورسفینہ نے اپنے مقالات پیش کیے۔دوسرے دن کے چوتھے اورآخری سیشن کی صدارت الہ آبادیونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے استاذپروفیسرعبدالقادرجعفری ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق استاذ پروفیسرعراق رضازیدی اورپروفیسرقدوس جاوید نے کی ۔اس سیشن کی نظامت رئیس فاطمہ نے کی اوراس سیشن میں سیدتصورمہدی،ناہیدزہرا،تحسین سلطانہ ،عبیداللہ ہارون ،مسرورفیضی اور توصیف خان نے اپنے مقالات پیش کیے۔سمینار کے دوسرے دن کے تمام اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ بڑی تعداد میں مختلف شہروں سے آئے ہوئے ریسرچ اسکالرز کے ساتھ ساتھ اساتذہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔اور اس بات پر زور دیاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان سمیناروں کے ذریعہ ریسرچ اسکالرز کو علمی طورپر بھرپور مدد دیں تاکہ ریسرچ کا معیار بلند رہے۔
سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینارکے تیسرے اور آخری دنکے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز ناقد ومحقق اوراردومیں جدیدیت کے بانی پروفیسرشمس الرحمان فاروقی نے کہاکہ کچھ رائج الفاظ کا دامن تھام لینے سے زبان کی وسعت سمٹ رہی ہے ۔بتدریج زبان اپناتلفظ خوداختیارکرتی ہے۔لہجوں کی اہمیت مسلم ہے۔لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں خطے کالہجہ ہی اہم ہے۔تلفظ کی تشکیل میں ذرا وقت لگتا ہے ۔زبان اپنے تلفظ کوخود قائم کرلیتی ہے۔ہردن کے مقالات پرتاثردینے کے لیے ایک ریسرچ اسکالر کاانتخاب ضرور کرنا چاہیے ۔تبادلہ خیالات زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے۔انہوں نے سمینارپرمجموعی تاثرپیش کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ناول نگاری کی پہلی شرط یہ ہے کہ حقائق کوتصورمیں ڈھالا جائے ۔لکھنے سے پہلے غوروفکر سے کام لیا جائے ۔سوالات قائم کیے جائیں ۔اختتامی اجلاس کی اپنی صدارتی تقریرمیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری صدیق الرحمان قدوئی نے کہاکہ اردومیں تنوع اوررنگارنگی ہے ۔واحد وجمع کے قواعد بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔بہت کچھ چند برسوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخراردوزبان اوراس کے معیارکا پیمانہ کیا ہے۔زبان ،علاقائیت ،ادائیگی ،لہجے اورمختلف قواعد وضوابط میں اختلافات جاری رہتے ہیں ۔انہوں نے اس موقع پر ریسرچ اسکالروں کے مقالوں پراظہارخیال کرتے ہوئے اطمینان کا بھی اظہارکیا۔قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے ڈائرکٹرپروفیسرارتضی کریم نے شکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی محنتوں کانتیجہ ہے یہ سمیناراوراراکین غالب انسٹی ٹیوٹ نے بڑی جانفشانیوں سے کام کیا ہے ۔انہوں نے ریسرچ اسکالرز کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہاکہ آپ کل فخر کریں گے کہ آپ نے اپنا پہلا مقالہ فاروقی صاحب کے سامنے پیش کیاتھاچوں کہ فاروقی بننے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ نہیں جاننا بہت بڑی خرابی نہیں ہے ۔لیکن نہ جاننے کے باوجود اصرارکرنا بری بات ہے ۔ریسرچ اسکالروں کے ہاتھوں میں اردوکے مستقبل کی باگ ڈور ہے انہیں اس بات کاہمیشہ خیال رکھنا ہوگا۔اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردوکے صدرپروفیسر شہپررسول نے کہاکہ ہندوستان کے مختلف خطوں سے اسکالرز آئے حتی کہ بیرون ممالک کے ریسرچ اسکالروں نے بھی مقالات پیش کیے ۔پوری دنیا زوال کاشکار ہے ۔جامعات بھی اس سے بالاترنہیں ہیں۔اس لیے صرف ریسرچ اسکالروں کا ماتم کرنا مناسب نہیں ہے ۔اس اختتامی اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدرنے کہاکہ ہندوستان کی تقریبا چالیس یونورسٹیز کے ریسرچ اسکالروں نے یہاں شرکت کی ۔ان تین دنوں میں تقریبا ۶۰مقالات پیش کیے گئے اورتمام اجلاسوں کے صدورکامجموعی تاثر اچھا رہا ہے اس لیے ہم اپنی محنتوں سے خوش ہیں اور اپنے ریسرچ اسکالروں سے پرامید ہوں کہ وہ آئندہ مزید بہتر نتائج پیش کریں گے۔خیال رہے کہ اس موقع پر تمام مقالہ نگاروں اور شرکاکوکتابوں کا تحفہ پیش کیا گیا ۔اس سے قبل تیسرے دن کے پہلے سیشن میں صدارتی گفتگو کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذپروفیسراحمدمحفوظ نے کہاکہ زبان کے اصول وضوابط اورقواعداپنی جگہ مسلم لیکن روزمرہ کے استعمالات اوررائج طریقہ اظہارسے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس موقع پرانہوں نے ریسرچ اسکالر ز کی حوصلہ افزائی کی ،مبارک باد پیش کی اوریہ بھی کہاکہ شاعری پرکام کرنے والوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اشعار بے وزن نہ ہونے پائیں۔پہلے سیشن کے دوسرے صدراوردہلی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے استاذ پروفیسرعلیم اشرف نے کہاکہ قومی سمینارہوں یا بین الاقوامی سمینار ہرجگہ اسکالرز کو بہت ہی کم وقت اظہارمافی الضمیرکے لیے ملتا ہے۔کئی مقالہ نگارو قت کی قلت کی وجہ سے اپنی بات نہ کہہ سکے۔بالخصوص ریسرچ اسکالروں کے لیے وقت کا اضافہ کرنا چاہیے چوں کہ یہی ہمارا مستقبل ہیں ۔تاکہ ہمیں بھی اپنے مستقبل کو سننے اورسمجھنے کا موقع ملے ۔اس سیشن کی نظامت فرمان چودھری نے کی ۔جب کہ تاضی اسدوصی ،سیدہ خاتون ،نائلہ اختر،صفی محمدنائک ،عالیہ خان،رخسارپروین ،تحسین بانو نے مقالات پیش کیے ۔دوسرے سیشن کی صدارتی کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے استاذ پروفیسرچندرشیکھرنے کہاکہ اس سیشن کے تمام مقالے اچھے تھے۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مقالات کے موضوعات میں تنوع اوررنگارنگی تھی ۔انہوں نے اس موقع پر اردوکی ڈجیٹل دنیا کے حوالے سے بھی کافی پرمغز باتیں کیں۔اس سیشن کے دوسرے صدرجے این یو کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے استاذ پروفیسرخواجہ اکرام نے کہاکہ ان پیج کی آمد نے جہاں اردو دنیا کو کافی فائدہ پہنچایا وہیں اس نے اردو کو پچیس برس پیچھے بھی کیا۔انہوں نے مزید کہاکہ حوصلہ افزائی کی قلت ہمارے یہاں بہت زیادہ ہے ۔عام طورپر ہم اپنے اسکالرز کی حوصلہ شکنی کے عادی ہیں ۔جب کہ اقلیت کو اکثریت پرمحمول نہیں کرنا چاہیے ۔انہوں نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارک باد دیتے ہوئے مقالوں کے نقائص اوران کی خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔خیال رہے کہ دوسرے سیشن میں ضیاء اللہ انورنے نظامت کی اورعبدالرزاق ،انجمن النسا،غزالہ صدیقی ،امان اللہ ،نرجس فاطمہ،نورین علی حق ،سریتاچوہان اورشاداب شمیم نے اپنے مقالات پیش کیے ۔سمینارکے آخری دن کے تیسرے سیشن کی صدارت ادے پوریونیورسٹی کے استاذ پروفیسرفاروق بخشی اورفاروق ارگلی نے کی ۔اس سیشن کی نظامت تسنیم بانونے کی اورولی اللہ قادری ،محمدارشد،نصرت جہاں،شفقت حسین بھٹ ،علی عباس ،سلمی رفیق اوررضی شہاب نے اپنے مقالات پیش ۔سمینا رمیں بڑی تعداد میں اساتذہ،ریسرچ اسکالرز، ایم اے کے طلبہ و طالبات کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور گفتگو میں حصہ لیا۔

Friday, October 21, 2016