Contact Numbers: 9818050974(Dr. Raza Haider), 9911091757 (Dr. Idris Ahmad), 9891535035 (Abdul Taufique) -- ghalibinstitute@gmail.com

Sunday, February 16, 2014

بین الاقوامی سمینار(یومِ غالب)کا انعقاد


غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ، آغاخان فاؤنڈیشن، انجمن ترقی اردو دلّی و غالب اکیڈیمی کے تعان سے غالب کی یومِ وفات(یومِ غالب) کے موقع پر ’’کلامِ غالب کا تجزیہ‘‘ کے موضوع پرمنعقدبین الاقوامی سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے آغاخان فاؤنڈیشن کے چیئرمین پروفیسر آباد احمدنے فرمایاکہ غالب کی غزل کے ساتھ اُن کے خطوط نے بھی ہمیں ردو نثرکاقیمتی سرمایہ دیاہے۔ ہندستان کی تاریخ کو ہم غالب کی نثر کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ آپ نے اس سمینار کے انعقاد کے لئے غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کی اور اپنا تعاون پیش کرتے رہنے کاوعدیٰ کیا۔اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی سکریٹری غالب انسٹی ٹیوٹ نے کہاکہ غالب کے اشعارکا کمال ہے کہ اُس کے بے شمار معنی ہم نکال سکتے ہیں۔ غالب کے اشعار کی خوبی ہے کہ ہر محفل میں اُس کے کئی سیاق و سباق سے ہم متعارف ہوتے ہیں۔ آپ نے موضوع کے تعلق سے فرمایاکہ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے اسکالرز اس موضوع کے تعلق سے کلامِ غالب کاتجزیہ مختلف اور نئے انداز میں پیش کریں گے۔ ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹرسید رضاحیدر نے اپنی افتتاحی گفتگو میں کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ اور انجمن ترقی اردو دلّی شاخ پچھلے ۴۵برسوں سے غالب کی یومِ وفات کے موقع پر یومِ غالب کا اہتمام کررہاہے۔ اس دفعہ ہم نے اس جلسہ کادائرہ وسیع کردیاہے اور اسے بین الاقوامی سمینار اور عالمی مشاعرہ کی شکل دے دی ہے۔ آپ نے مزید فرمایاکہ غالب کے کلام کااعجاز ہے کہ کلامِ غالب کی آفاقیت یہ ہے کہ دوسوسال کاطویل عرصہ گذرجانے کے بعدبھی غالب کی شاعری ہماری فضاکومعطر کیے ہوئے ہے۔غالب کے کلام کو پڑھ کر یہ احساس ہوتاہے کہ غالب ہماری زندگی سے بے حد قریب ہے۔معروف ادیب و دانشور اور خدابخش لائبریری کے سابق ڈائرکٹرڈاکٹر عابدرضابیدارنے فرمایاکہ غالب کی شاعری کاکمال ہے کہ وہ اپنے اشعار میں ایسا نکتہ پیش کرتے ہیں جو ہماری تہذیب سے بے حد قریب ہے۔ یہ بھی غالب کے کلام کی خوبی ہے کہ اردوپرتو بُراوقت پڑسکتاہے مگر غالب کی شاعری پرنہ کبھی بُراوقت پڑااور نہ پڑے گا۔کینیڈا کے معروف اسکالراور ڈرامہ نگارجاوید دانش نے فرمایاکہ اتنے طویل عرصے کے گذر جانے کے بعدبھی ہم آج بھی غالب یاد کرکے خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایاکہ اس انفارمشین ٹکنالوجی کے د ورمیں بھی غالب فیس بُک اور انٹرنیٹ کی دنیامیں بھی کافی مقبول ہیں۔ غالب امریکہ اورکینڈامیں صرف اردو داں طبقے میں مقبول نہیں ہیں بلکہ ہرپڑھالکھا آدمی غالب کو پڑھتااور سمجھتا ہے۔ اس موقع پر آپ نے غالب کی ایک غزل کاانگریزی ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔لندن سے تشریف لائے’صددا‘ میگزین کے ایڈیٹر اقبال مرزانے فرمایاکہ انگلینڈ میں رابندرناتھ ٹیگور، اقبال اور غالب بے حد مقبول ہیں اور غالب ان دونوں سے زیادہ مقبول ہیں۔ غالب کے اشعارکی خوبی یہ ہے کہ ہر خاص و عام میں غالب کے اشعار مقبول ہیں۔افتتاہی اجلاس کے اختتام سے پہلے انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہدماہلی نے تمم مہمانوں کا شکریہ ادا کرکے اس جلسہ کی تاریخی حیثیت پر بھی روشنی ڈالی۔آخر میں الٰہ آباد سے تشریف لائیں معروف غزل سنگر منیرہ خاتون نے غالب کی غزلیں اپنی خوبصورت آواز میں پیش کیں۔اس جلسہ میں علم و ادب کی بے شمار ہستیاں موجود تھیں۔
دو روزہ بین الاقوامی سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت لندن سے تشریف لائے مہمان اسکالراور صدا میگزین کے مدیر ڈاکٹر اقبال مرزا اور انجمن ترقی اردو ہند دہلی شاخ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹراطہرفاروقی نے کی اورنظامت کافریضہ ڈاکٹر شعیب رضاخاں نے انجام دیا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر سہیل انور،ڈاکٹر خالدمبشر، ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب، ڈاکٹر نجمہ رحمانی اور ڈاکٹر مرزاشفیق حسین شفق نے اپنے گراں قدر مقالات پیش کئے۔ ان تمام حضرات نے غالب کی اہم غزلوں کا تجزیہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔ اس اجلاس میں کینیڈاکے معروف ادیب و دانشور ڈاکٹر تقی عابدی کامقالہ جے این یو کے ریسرچ اسکالر محمد رکن الدین نے پڑھا۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے مقالہ میں غالب کی ایک فارسی غزل کا عالمانہ محاکمہ پیش کیا۔ جس کی فاضل مقرر نے خوبصورت قرأت کی۔ سمینارکے دوسرے اجلاس کی صدارت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر شمیم حنفی اور ازبکستان سے تشریف لائے اسکالر ڈاکٹر سراج الدین نورمتو موجود تھے۔اس اجلاس میں پروفیسر انوارپاشا،ڈاکٹر عشرت ناہید، پروفیسر عتیق اللہ نے اپنا عالمانہ مقالہ پیش کیا۔ اس جلاس کے اہم مقالہ نگار پروفیسر عتیق اللہ غالب کی پہلی غزل کے پہلے شعر پر اپنا پُرمغز مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے مقالہ میں غالب کے پہلے شعر کاکماحقہ محاکمہ پیش کیا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر ممتاز عالم نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی،ڈاکٹر عابد رضابیدار اور کینیڈا کے معروف ڈرامہ نگار ڈاکٹر جاوید دانش نے کی اور اس اجلاس میں پانچ اہم مقالے پیش کئے گئے۔ ڈاکٹر مشتاق صدف ڈاکٹر جمیل اختر، ڈاکٹرکوثر مظہری، ڈاکٹر سراج اجملی اور ڈاکٹر ابوبکر عباد نے اپنے مقالات پیش کئے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر شگفتہ یاسمین نے نظامت کی۔اس سمینار کی خاص بات یہ تھی کہ تمام مقالہ نگار حضرات نے غالب کی ۲۰ اہم غزلوں کاعالمانہ تجزیہ پیش کیااور اپنے نقطہ نظرکی وضاحت کی۔ اس موقع پر آغاخان فاؤنڈیشن کی امیرخسرو پرلکھی ہوئی خوبصورت کتاب تمام مقالہ نگار حضرات کو تحفتہً پیش کی گئی۔ اس سمینار میں طلبا و طالبات، ریسرچ اسکالرز،اساتذہ اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین کثیر تعداد میں موجود تھے۔ سمینارکے بعدایک عالمی مشاعرے کااہتمام کیاگیاجس کی صدارت جناب گلزار دہلوی نے کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے دہلی سمبلی کے ایم۔ایل۔اے جناب شعیب اقبال موجود تھے۔ اس مشاعرے میں ملک اور بیرون ملک کے اہم شعرانے شرکت کی۔
--




یومِ غالب کے موقع پر عالمی مشاعرہ 

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ، آغاخان فاؤنڈیشن، انجمن ترقی اردو دلّی شاخ و غالب اکیڈیمی کے تعان سے غالب کی یومِ وفات(یومِ غالب) کے موقع پر ’’کلامِ غالب کا تجزیہ‘‘ کے موضوع پرمنعقدبین الاقوامی سمینارکے موقع پر ۱۶؍فروری شام ۶بجے ایوانِ غالب میں عالمی مشاعرہ کابھی انعقاد کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کومحظوظ کیا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت عہد حاضر کے بزرگ شاعر جناب گلزار دہلوی نے انجام دی۔ نظامت کا فریضہ جناب معین شاداب نے انجام دیا۔ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر رضاحیدر نے اس مشاعرے کی تاریخی حیثیت پرروشنی ڈالی۔اس مشاعرہ کا آغاز شاہد ماہلی کی نظم ’’غالب‘‘ سے ہوا۔
رفعتِ فکر و تخیّل کا سراپاکہئے
معنی و ہیئت و اسلوب میں تنہا کہئے
اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پیش ہیں کچھ شعرا کرام کے منتخب کلام:
تو کہ ہر شخص کا سمجھایا ہوا تُو
کس قدر اور لگا لوٹ کے آیاہوا تو
نسرین،بھٹی (لاہور)
میری پہلو تہی کے بھی نئے پہلو نکل آئے
میں جس در پر بھی دستک دوں وہیں سے تو نکل آئے
زاہد نبی(لاہور)

ہم ان سے کم ہی امید افادہ رکھتے ہیں
غلط ہیں وہ جو توقع زیادہ رکھتے ہیں
ابرار کرتپوری
ہر مسلک ہر مکتب عشق نہیں ہوتا
سب لوگوں کا مذہب عشق نہیں ہوتا
معین شادب
گلزار آبروئے زباں اب ہمیں سے ہے
دلّی میں اپنے بعد یہ لطف سخن کہاں؟
گلزار زُتشی دہلوی
پوچھئے دل سے عشق میں ایسے قدم اٹھائے کیوں
خود ہے بنائے دردِ دل کرتا ہے ہائے ہائے کیوں
متین امروہوی
دہلی سخنوروں کا ہے مرکز مگر میاں
اردو کے کچھ چراغ تو،پنجاب میں بھی ہیں
جتندر پرواز
پسند آئے خدا باعمل فقیر تجھے
پسند نہ آئے ذرا بے عمل امیر تجھے
عارف دہلوی
بدل سکے نہ شب و روز ان کی فطرت کو
گلوں کے ساتھ تھے لیکن وہ خار خار رہے
اقبال مرزا(لندن)
گھرانے پر اثر پڑنے لگا ہے دور حاضر کا
روایت ختم ہوتی جارہی ہے خاندانوں کی
عظمی اختر
فقیری آج تک فطرت ہے میری
حویلی میں بظاہر رہ رہا ہوں
جاوید دانش(کینیڈا)
ہمیں نصیب ہیں صحرا نوردیاں یارو
نہ اپنے گھر کو نہ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
سلیم صدیقی
بہت شدت سے یاد آیا بچھڑ جانے پہ اس کے
وہ لمحہ، یہ سفر آغاز جب ہم نے کیا تھا
سراج اجملی
آکے جو اُس نے بسائی دل کی بستی ایک دن
پھر صدا دینے لگا یہ ساز ہستی ایک دن
نسیم نیازی
ساتھ فرعون لے گیا حسرت
لاکھ چاہا مگر خدا نہ ہوا
ماجد دیوبندی
نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پائی
زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے
پروفیسر غضنفر
اب نہ سمجھوتہ کروں گا کبھی رفتار کے ساتھ
پھٹپھٹی میں نے لگادی ہے تری کا رکے ساتھ
اقبال فردوسی
مہکی مہکی چاندنی، جھلمل ندی کاذائقہ
رُخ پہ زلفوں نے دیا خوش منظری کا ذائقہ
ظفر مراد آبادی
ہتک آمیز نظروں سے کوئی دیکھے جہاں ہم کو
قدم رکھنا بھی اس دہلیز پر اچھا نہیں لگتا
وقار مانوی
انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہد ماہلی نے تمام سامعین کافرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔
۔۔

Tuesday, February 4, 2014

غالب انسٹی ٹیوٹ میں ثروت خان کی کتاب پر مذاکرہ


غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پر معروف افسانہ نگار ڈاکٹر ثروت خان کی کتاب ’’شورشِ فکر‘‘ پر ایک مذاکرے کااہتمام کیا
گیا۔جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے ڈاکٹر ثروت خان کی اس اہم کتاب پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اس کتاب میں جتنے بھی مضامین ہیں اُن میں آپ نے نئے معنی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے خصوصاً خواتین کے مسائل پر جتنی سنجیدگی سے آپ نے گفتگو کی ہے اس سے مصنف کے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی ہوتی ہے۔ اس موقع پر پروفیسر عتیق اللہ نے بھی اپنی صدارتی گفتگو میں ثروت خان کی کتاب کے چند نکا ت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ثروت کی اچھی تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ا یک بہترین تخلیق کارہیں،اُن کاناول اندھیرا یُگ اُن کی تخلیقی کاوشوں کاایک شاہکار نمونہ ہے اور موجودہ کتاب ’شورشِ فکر‘‘ اُن کی عمدہ تنقید کی خوبصورت مثال ہے۔ مذاکرے کے مہمانِ خصوصی پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ اس کتاب میں غالب کی فارسی شاعری پر جو آپ نے گفتگو کی ہے اُسے پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی ادب پر بھی آپ کی نظر ہے۔ اخترشیرانی پر لکھا ہوا آپ کا مضمون بھی نئی جہتوں کی طرف اشارہ کررہاہے۔ ڈاکٹر نگار عظیم نے اپنی تقریر میں فرمایاکہ ثروت خان کی اس کتاب میں زیادہ تر مضامین تنقیدی ہیں چونکہ وہ ایک اچھی تخلیق کار ہیں لہٰذا انہو ں نے اپنے تنقیدی مضامین میں بھی اہم تخلیقی گوشے پیدا کئے ہیں جس سے اس کتاب کی انفرادیت میں اضافہ ہواہے۔ ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے اپنی پُرمغز گفتگو میں کہا کہ ثروت خان ہماری اُن تخلیق کاروں میں ہیں جنہوں نے ادبی دنیاکو پچھلے دس برسوں میں ۵اہم کتابیں دیں اور یہ تمام کتاب علمی و ادبی دنیا میں اہمیت کی حامل ہیں۔خصوصاً شورشِ فکر اُن کی تنقیدی فکر کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ جناب پیغام آفاقی نے کہاکہ ثروت کی اس کتاب کی خاص بات جوقاری کو متوجہ کرتی ہے وہ اُن کے دلائل ہیں وہ اپنی باتوں کو مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ آپ نے مزید کہاکہ آپ نے راجستھان کے کلچرکوجس خوبی کے ساتھ پیش کیاوہ انہیں کاحصہ ہے اس لئے کہ وہ خود راجستھان کی تہذیب سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر مولیٰ بخش نے کہاکہ ثروت خان بنیادی طورپر ایک تخلیق کارہیں جو کہ اُن کی بنیادی پہچان ہے مگر اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے تنقیدی مضامین میں بھی بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرتی ہیں۔ اس کتاب میں عورتوں کی حریت کے مسئلے کو آپ نے بڑی بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ اٹھایاہے۔ جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب کاتعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں شامل تمام مضامین میں سے میں دو مضامین جو غالب اور انیس پر لکھے گئے ہیں اُن مضامین میں ثروت خان نے انیس کی شاعری میں انسانی رشتو ں کی عظمتوں کو جس اندازمیں پیش کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ڈاکٹر ثروت خان نے خود اپنی تخلیق کے بارے میں مختصراً اتناکہاکہ خواتین کاقلم مردوں کے قلم کی برابری کرنے کے لئے نہیں اٹھتاکیونکہ گودں کے پالوں سے بھلا کیا مقابلہ بلکہ عورت کافکری نظام تو انسان کا انسان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک اور استحصال کے خلاف احتجاج کرتاہے۔ یہ استحصال چاہے مردکاہو یا عورت کا، ملک ہو یاقدرت کا، زمین کا ہو یافضا کا استحصال کرنے والے سے سوال بھی کرتا ہے اور جواب بھی مانگتا ہے۔ جس کے بطن سے فکرکا عنصر جنم لے کر سماج کو بیدا رکرتا ہے۔آخرمیں جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین اور ثروت خان کاشکریہ اداکرتے ہوئے فرمایاکہ ہمیں اُمیدہے کہ یہ ثروت خان کی یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوگی۔ 

تصویر میں دائیں سے بائیں:۔ڈاکٹر رضاحیدر، ڈاکٹرثروت خان، پروفیسر عتیق اللہ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر شریف حسین قاسمی، جناب شاہد ماہلی