’عرش سے اِدھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا‘
آخر میں آپ نے یہ بھی فرمایاکہ اِن حالات میں ہم ادیبوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے شاعروں کو ضرور یاد کریں جنہوں نے ملک کو جوڑ نے کی بات کہی ہے۔ اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اپنے تعارفی کلمات میں اشوک باجپئی کاخیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ آج یہ خطبہ اپنے موضوع کے اعتبارسے کافی اہم ہے او رہمیں پوری امید ہے کہ اشوک باجپئی اس موضوع کے تعلق سے ہماری سامنے ایسی باتیں پیش کریں گے جس سے ہمیں اِن دونوں شاعروں کو ایک نئے انداز سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے وائس چیرمین ڈاکٹر پرویز علی احمدنے اپنے صدارتی کلمات میں اِن عظیم شاعروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جلسے کی ابتدامیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے اشوک باجپئی کاتعارف کراتے ہوئے کہاکہ اشوک باجپئی اپنی تحریروں اور تقریروں سے جتنے ہندی والوں میں مقبول ہیں اتنی ہی مقبولیت اُن کی اردو داں طبقوں میں بھی ہے۔ آپ کی ایک خاص بات یہ بھی رہی ہے کہ آپ نے ہندی اور اردو ادب کی مشترکہ روایتوں کو ہمیشہ ایک دوسرے سے جوڑ کراپنی تقریروں اور تحریروں میں پیش کیا ہے۔ اس جلسے میں جسٹس بدر دُرریزاحمد، جسٹس نجمی وزیری، محترمہ رخشندہ جلیل، پروفیسر طاہر محمود، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر خواجہ محمداکرام الدین اور شاہد ماہلی کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔
تھے۔
تصویر میں(دائیں سے): اشوک باجپئی،سید رضاحیدر،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر پرویز علی احمد،جسٹس بدر دُرریز احمد